خداداد خان وکٹوریہ کراس کا ’’دیسی سپاہی‘‘ 1914ء کو بلجیئم میں جرمنوں سے لڑے‘ پاک فوج نے بھی بابائے بلوچ رجمنٹ کا خطاب دیا
لاہور (بی بی سی) پچھلے ایک سو اٹھاون برس سے دنیا بھر میں جانا مانا وکٹوریہ کراس ان لوگوں کے سینے پر سجتا ہے جنہوں نے دشمن سے کسی مڈھ بھیڑ‘ لڑائی اور جنگ کے بیچوں بیچ کوئی انہونا یا حیران کن جنگی کارنامہ کر دکھایا ہو۔ یہ تمغہ 1856ء میں ملکہ وکٹوریہ کے حکم پر جاری ہوا اور اسے 1854ء میں کریمیا کی جنگ میں روس سے چھینی دو توپوں کی دھات سے تیار کیا جاتا ہے۔ پنجاب بالخصوص پوٹھوہار کے علاقے سے چار لاکھ سے زائد دیسی فوجی یورپ بھیجے گئے۔ سپاہی خداداد خان بھی لاکھوں میں ایک تھے۔ سپاہی خداداد خان کی رجمنٹ ڈیوک آف کنوٹس اون بلوچ ان پہلی دیسی رجمنٹوں میں سے تھی جنہیں جنگ کے ابتدائی مہینوں میں ہی بحری جہازوں میں بھر بھر کے ہندوستان سے فرانس اور پھر بلجیئم کے فرنٹ تک پہنچایا گیا۔ اکتیس اکتوبر 1914ء کے دن ہولی بیک کے مقام پر سپاہی خداداد خان کی رجمنٹ کی جرمنوں سے خونی مڈھ بھیڑ ہو گئی۔ جس مورچے پر خداداد خان کی ڈیوٹی تھی اس پر ان کے پانچ اور ساتھی بھی تھے جو سب کے سب فرض پر قربان ہو گئے۔ سپاہی خداداد خان زخمی ہونے کے بعد بھی تب تک اکیلے ڈٹے رہے جب تک انہیں جھٹپٹے کے بعد بیس کیمپ تک پیچھے آنے کا حکم نہ ملا۔ اس جرأت اور حوصلے پر سپاہی خداداد خان کو ہندوستان کا پہلا وکٹوریہ کراس اور صوبیداری ملی۔ وکٹوریہ کراس کے ساتھ ہی صوبیدار خداداد خان کو ضلع منڈی بہاؤالدین کے چک پچیس میں پچاس ایکڑ زمین بھی الاٹ ہوئی اور یہیں خداداد خان آٹھ مارچ 1971ء سے ابدی آرام میں ہیں۔ 1956ء میں صوبیدار خداداد خان وکٹوریہ اینڈ جارج کراس ایسوسی ایشن کی دعوت پر لندن گئے تو لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے وکٹوریہ کراس اور جارج کراس حاصل کرنے والے فوجیوں کو کھانے پر بلایا مگر صوبیدار نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ماؤنٹ بیٹن نے جس بے دردی سے ہندوستان کی تقسیم کی ایسی بے انصافی کے بعد وہ اس کی دعوت قبول نہیں کر سکتے۔ پاکستانی فوج کی ہائی کمان نے خداداد خان کو ان کی زندگی میں ہی بابائے بلوچ رجمنٹ کا خطاب دیا اور انتقال کے بعد ان کا کانسی کا بڑا سا مجسمہ آرمی میوزیم راولپنڈی کے احاطے میں نصب کر دیا۔