لاکھوں فیکٹری مزدور خواتین12 گھنٹے کی مشقت کے باوجود نامساعد حالات، حق تلفی اور استحصال کا شکار ہیں
لاہور(رفیعہ ناہیداکرام)ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کاکرداراداکرنے کے باوجودپنجاب کی لاکھوںفیکٹری مزدورخواتین 12گھنٹے کی مشقت کے باوجود نامساعد حالات، حق تلفی اوراستحصال کاشکارہیں۔طویل اوقات کار، انتہائی قلیل اجرت،بنیادی حقوق اورسہولتوںسے محرومی اور تقررنامے نہ ہوناسمیت لاتعدادمسائل ہیں جن کی وجہ سے انہیں شدیدمشکلات کاسامناکرناپڑتاہے۔ جبکہ ٹریڈیونینزبھی ان خواتین کو نظراندازکرتی ہیں جس سے مسائل حل ہونے کی بجائے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔جوفیکٹری مالکان ٹرانسپورٹ کی سہولت دیتے ہیں وہ رات کودیرتک کام کرواتے ہیں اور صبح چھ بجے واپس انکی گاڑی ورکرزکولے آتی ہے ۔ گارمنٹس، فارماسوٹیکل ، الیکٹرانکس کی فیکٹریوںمیںمسلسل کھڑے ہوکرکام کرنے کی وجہ سے خواتین کے پاؤںسوج جاتے ہیںجبکہ فیکٹریوںکے ماحول کی وجہ سے انہیںگلے، سانس،آنکھوں کی بیماریاں، بلڈپریشروغیرہ لاحق ہوجاتی ہیں مگر کسی قسم کی میڈیکل کی سہولت انہیں دستیاب نہیں ہوتی۔ لیبرانسپیکشن نہ ہونے کی وجہ سے اب بارہ سے پندرہ سال کی بچیوںکوبھی کم اجرت پررکھ لیاجاتاہے۔اکثرفیکٹریوںکی لیبرڈیپارٹمنٹ میں رجسٹریشن نہیں ہے اسلئے یہاںکام کرنے والی خواتین کولیبر تسلیم کرنے کاکوئی تصور نہیں ہے۔اکثرلڑکیوںکوشادی کیلئے یامیٹرنٹی لیوکیلئے چھٹی کی بجائے ملازمت سے ہی جواب دے دیاجاتاہے۔ نوائے وقت سے گفتگومیں مزدورخواتین کے حقوق کی تنظیم ورکنگ ویمن آرگنائزیشن کی ایگزیکٹوڈائریکٹرآئمہ محمود نے کہاکہ ٹریڈیونینزبھی مستقل ورکرنہ ہونے کی وجہ سے انہیں اہمیت نہیں دیتیںجس کی وجہ سے انکے استحصال کی داستان طویل ہوتی چلی جاتی ہے۔