گورنر ہائوس میں شورش ڈے
شورش اور گورنر ہائوس لاہور کا چولی دامن کا ساتھ ہے، اسی گورنر ہائوس میں گورنر غلام مصفی کھر صوبے کے لاٹ صاحب بن کے مقیم تھے اور آغا شورش کاشمیری سے ان کی ٹھنی رہتی تھی۔ مگرآغا صاحب زندگی کے آخری ایام میں بستر پر تھے، ہلنا جلنا ان کے بس میںنہ تھا، ایک لمحے کے لئے آنکھیں کھولیں تو مصطفی کھر ان کے پائوں پکڑے ہوئے معافی کا خواستگار تھا۔
آج گورنر ہائوس میں ہر طرح کی تقاریب ہوتی ہیں، گورنر سرور نے دل بہلاوے کے کئی سامان کر رکھے ہیںمگر وہ نہیںجو مصطفی کھر کے تھے۔ہمارے اخوت والے دوست ڈاکٹر امجد ثاقب اپنی کتابوں کی تقریب رونمائی یہیں کرتے ہیں،امجد ثاقب کسی سرکاری عہدے پر ہیں،اس لئے اب وہ اخوت والے کم کم ہیں اور سرکاری درباری زیادہ بن گئے ہیں۔
مگر گورنر ہائوس پر اگر کسی کا حق بنتا ہے تو وہ آغا مشہود شورش کا ہے، وہ طنطنے والا نوجوان ہے،باپ کی شکل و صورت، وہی گرجدار آواز،ایک شعر سناؤ تو پوری نظم فر فر سنا دیتا ہے، اس قدر تابعدار اور عاجزی کا پیکر کہ پاس بیٹھا ہو تو حد ادب سے اس کی سانس کی ا ٓواز بھی سنائی نہ دے۔
ایک زمانہ تھا لاہور کا جناح ہال تقاریب کا مرکز تھا، حمید نظامی ڈے تو ایک روائت بن گئی تھی، پھر مرکزیہ مجلس اقبال کے سالانہ اجلاس اور شورش کے سوا کون تھا جو ان میں گھن گرج کے ساتھ بول سکتا۔شورش اللہ کو پیارے ہوئے تو ان کی یاد میں شورش ڈے منایا جانے لگا اور بڑی باقاعدگی سے منایا جانے لگا، علم و ادب کے شائقین اور تاریخ و سیاست ا ور صحافت کے طالب علم جوق در جوق چلے آتے ۔پھراس شہر لاہور کو نظر لگ گئی، یہ شہر تہذیبوں کا منبع تھا، اچانک دریائے راوی کی طرح اس شہر کے تہذیبی سوتے خشک اور ویران پڑ گئے۔ بس رہے نام اللہ کا، اب اس شہر میں شیر دھاڑتا ہے، تیر چلتے ہیں ، دھرنے دیئے جاتے ہیں اور احتجاجی جلسے شور مچاتے ہیں۔ آزادی مارچ نکلتے ہیں اور انقلاب کے آوازے گونجتے ہیں۔ اس ہائو ہو سے شہر لاہور بے روح ہو کر رہ گیا ہے۔
میرے دل میں کہاں سے خیال آیا کہ میں نے مشہود شورش کو فون کر دیا کہ وہ ہماری محفل میں آئے، یہ منی شورش ڈے تھا،گنتی کے چند لوگ۔ گفتگو کے لئے ڈاکٹر شفیق جالندھری اور مجیب الرحمن شامی کو خصوصی دعوت دی۔ حافظ شفیق الرحمن کو کہیں سے بھنک پڑی کہ میں شورش ڈے منانے کی جسارت کر رہا ہوں، کہنے لگے کہ وہ بن بلائے آئیں گے، وہ بھی آ گئے اور یوں محسوس ہوا کہ شورش کا جلال دیکھنے اور سننے کو مل گیا ہے۔ وہ اس محفل میں بولے اور یہ سوچ کر بولے کہ وہ ہزاروںکے مجمعے سے خطاب کر رہے ہیں، شورش کاشمیری کو انہوںنے زندہ کر دیا، ڈاکٹر شفیق جالندھری نے اپنے انداز سے گفتگو کی، وہ نئی تجاویز دینے کے ماہر ہیں، کہنے لگے کہ شامی صاحب یہاں ہوتے تو میں ان کو تجویز دیتا کہ وہ مولانا ظفر علی خان ٹرسٹ کے تحت شورش ڈے بھی منائیں اور ان کی تحریروں اور تقریروں کے مجموعے بھی پبلک میں لائیں۔ شامی صاحب ایک گھنٹے کی تاخیر سے آئے۔ مشہود شورش نے ان کے سامنے گلے شکووں کا ایک انبار رلگا دیا، کہہ رہے تھے کہ کسی حرافہ کی مہندی کا شگن ہو، یا کسی اداکارہ کی برسی کا موقع تو ہمارے ٹی وی چینل سارا دن اس کی یاد میںپروگرام پیش کرتے ہیں اور اخبارات خصوصی ایڈیشن شائع کرتے ہیںمگر شورش ڈے ہر سال آتا ہے ا ور خاموشی سے گزر جاتا ہے، کسی کو توفیق تک نہیں ہوتی کہ ان کاذکر تک زبان پر لائے۔شامی صاحب نے انہیں ہدایت کی کہ وہ گلے شکوے چھوڑیں ، اب ہمیں اپنی کوتاہی کا احساس ہو گیا ہے، شورش کے لئے اور دیگر اکابرین کے لئے ایک تو ظفر علی خان ٹرسٹ کے تحت بھی کام ہو سکتا ہے، مگر ان کے نام پر الگ سے بھی ادارہ بن سکتا ہے مگرا سکا فیصلہ کسی بڑی محفل میں ہو سکتا ہے ، جو گورنرہائوس میں برپا کی جائے۔ شامی صاحب نے کہا کہ ظفر علی خاں ٹرسٹ کے لئے کئی ایکڑ زمین لی جا چکی ہے ا ور ایک وسیع کوٹھی مسلم ٹائون میں دفتر کے طور پر کام دے رہی ہے۔ میںنے لقمہ دیا کہ دنیا میں ادارے بنتے ہیں مگر بڑے بڑے نہیں، یہاں ایوان اقبال بن گیا مگر اس میں سب کچھ ہے، اقبال نہیں ہے، ظفر علی خاں ٹرسٹ بنا ہوا ہے، برسوں سے کام کر رہاہے مگر اس کا کسی کو اتا پتا تک نہیں، ہمارے استاد محترم الطاف حسن قریشی کی عمر بیت گئی ، پائنا کی بنیاد کھڑی کرنے کے لئے اور اب اس کا ایک وسیع وعریض محل کھڑا ہو چکا ہے مگر کام سامنے نہیں آ سکا، آپ یا تو بلڈنگیں بنا لیں یا کام کر لیں، بلڈنگ بنانے پر عمر صرف ہو جاتی ہے اور کوئی خیال پیش کرنے کے لئے کسی دفتر، ادارے، اسٹیج،یا پلازہ نما ایوان کی ضرورت نہیں۔ میںنے کہا کہ آپ جثے اور حجم پر جا رہے ہیں ، مگر دنیا میں ایک ایک کمرے پر محیط تھنک ٹینک قائم ہیں جہاں سے ایسے نظریات جنم لیتے ہیںجو عالمی بساط کو الٹ دیتے ہیں۔
چلئے شامی صاحب کے ہاتھ ایک ا ور پراجیکٹ آگیا ہے، خدا کرے، وہ اس کی داغ بیل ڈالنے میں جلد کامیاب ہوں اور ایک شورش کیا، ہماری تاریخ تو اکابرین سے بھری پڑی ہے، مولانا سالک، مولانا مہر، سرسید، حسرت موہانی جن کی ساری عمر جیل میں اور ریل میںکٹ گئی۔ ہم تو پنجاب یونیورسٹی کے ڈاکٹر سید عبداللہ کو بھولتے جا رہے ہیں ، ابھی کل کی بات ہے ، ہمارے درمیان پروفیسر منور موجود تھے، اقبال پر وہ ا تھارٹی تھے اور ان کے سچے عاشق بھی ، اور تو اور عبد الجبار شاکر کی موت پر آسمانوں کور وناچاہئے تھا۔ میںنے کہا کوئی ایک چھوٹا سا کمرہ ہو جیسے ہال آف فیم ہوتا ہے اور اس میں ہم اپنے مشاہیرکے ناموںکی تختیاں ہی نصب کر دیں، کیا اتنا چھوٹا کام بھی ہمارے بس میںنہیں، ہم جو میٹرو بناتے ہیں، موٹر وے بناتے ہیں، کیا ہم ایک ہال آف فیم بنانے کی سکت نہیں رکھتے۔
میری سکت تو یہ تھی کہ ایک منی شورش ڈے مناتاا ور وہ میںنے منا لیا۔ کوئی درجن بھر دوستوںنے شورش کو یاد کیاا ور بے طرح کیا۔اسی طرح کی محفل ہم نے مولانا غلام رسول مہر کی یاد میںمنعقد کی تھی اور ایک محفل مولانا ظفر علی خان کے لئے بھی مختص کی تھی، ہم اپنا بھولاہوا سبق یاد رکھنے کی کوشش میںمصروف ہیں۔یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ میرے رہنما مجید نظامی کی یاد میں پہلی محفل بھی لاہور کے ایڈیٹروںنے اسی سادگی سے منائی تھی۔ سعید آسی اور سلیم بخاری نے بھی اس میں شرکت کی تھی۔انسان جو کچھ کر سکتا ہو، فوری کر دے ۔ لمبی چوڑی پلاننگ اور درد سری میں الجھ گیا تو اس کے لئے عمر خضر چاہیئے۔
شورش ڈے ہر سال منعقد ہونا چاہیئے اور جب تک گورنر سرور اور مشہود شورش یہاںموجود ہیں تو دربار ہال میں اس کاا نعقاد کیا جائے، شامی صاحب مقررین کی ایک فہرست تیار کریں اور گورنر سرور کے ہاتھ میں تھمائیں، سامعین خود بخود کھنچے چلے آئیں گے۔