• news

گوجرانوالہ میں ”گو اعجاز گو“ کے نعرے

قطر سے ایک مہربان کا فون تھا وہ بتانے لگے یہاں صرف پہاڑ ہیں‘ سنگلاخ چٹانیں ‘ مٹی نہیں‘ پانی نہیں ‘ جمہوریت نہیں ‘ باہر سے مٹی لائی گئی ہے۔ پہاڑوں پر اس زرخیز مٹی کی موٹی تہہ بچھا کر سبزے کا بندوبست کیا گیا ہے۔ یہاں دودھ‘ شہد کی نہروں کا سماں ہے۔ دودھ کی کمی نہیں۔ شہد وافر‘ مٹن‘ فش‘ چکن‘ روٹی ‘ مکھن‘ زیتوں ہر چیز باافراط ‘ یہ فراوانی صرف بازاروں میں دکانوں کے شوکیسوں تک محدود نہیں۔ ان تک ہر بندے کی پہنچ ہے۔ علامہ اقبالؒ زندہ ہوتے اور ایک مسلمان ملک کے یورپ ایسے حالات دیکھ کر کتنے خوش ہوتے وہ اللہ میاں سے گلہ گزار تھے۔
فردوس جو تیرا ہے کسی نے نہیں دیکھا
افرنگ کا ہر قریہ ہے فردوس کی مانند
فون جاری تھا۔ ان کی بات ابھی ختم نہ ہوئی تھی یہاں گورنمنٹ لوگوں پر بہت پیسے خرچ کرتی ہے۔ پل‘ سڑکیں‘ ہر شہری کو رہائشی سہولت‘ پھر امن و امان کی صورت ایسی کہ آدھی رات کو زیورات سے لدی پھندی عورت بے خوف و خطر کہیں بھی گھوم سکتی ہے۔ میں نے اپنے مہربان سے پوچھا۔ کیا اس کی وجہ بادشاہت ہے؟ میں جانتا ہوں کہ قطر میں بادشاہی نظام رائج ہے۔ پھر ہم دونوں سوچنے لگے کہ بادشاہت تو پاکستان میں بھی ہے۔ میرا دوست کہنے لگا۔ ان دنوں عمران خان یہی بات تو دہرا رہا ہے کہ پاکستان میں بادشاہت ہے۔ ایک خاندان کی حکومت ہے۔ پھر نوازشریف کی کروڑوں کی گھڑی کا ذکر ہوا۔ آخر میں بات یوں ختم ہوئی۔ وہ بولا۔ سچی بات یوں ہے کہ پاکستان میں نہ ہی جمہوریت ہے اور نہ ہی بادشاہت۔ پھر ملاوٹ والے دیسی گھی سے خالص بناسپتی گھی بدر جہا بہتر ہوتا ہے۔ پھر یہاں رہبر و رہزن میں تمیز بھی نہیں رہی جلسہ گاہوں میں سیاسی جماعتوں کے اسٹیج پر وہی لوگ دکھائی دیتے ہیں جن سے نجات خلق خدا کو یقین دہانی کرائی جاتی ہے۔ ظفر اقبال نے کہا ہے؟
ہم نے جدوجہد کرنا تھی ظفر جن کے خلاف
وہ سبھی آ کر ہماری صف میں شامل ہو گئے
تبدیلی کے علمبردار عمران خان کو اس عجیب و غریب اور پیچیدہ صورتحال میں تبدیلی کے لئے اور زیادہ محنت کی ضرورت ہو گی ہر قیمت پر اقتدار حاصل کرنے کی جنگ کے اور طرح کے مسائل ہوتے ہیں جبکہ معاشرے میں خوش آئند تبدیلی لانے کے لئے کچھ اور طرح کی اسرٹیجی اختیار کرنا پڑتی ہے۔ اس میں سیاسی اخلاقیت کے اعلیٰ اصولوں کی پاسداری لازم ہے۔ ڈی چوک اسلام آباد میں اڑھائی ماہ سے لگاتار دھرنوں اور شہر شہر احتجاجی جلسوں کا بنیادی مقصد وزیراعظم کا استعفیٰ ہے۔ خان صاحب میاں نوازشریف کا استعفیٰ لئے بغیر کسی صورت دھرنے سے اٹھنے کو تیار نہیں۔ وہ وزیراعظم کو دھاندلی کی پیداوار قرار دیتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ 2013ءکے الیکشن میں دھاندلی نہیں بلکہ ”دھاندلا“ کیا گیا۔ ان کے مطابق اس دھاندلی یا ”دھاندلا“ کے ذریعے عوام کا مینڈیٹ چرا لیا گیا ہے۔ اب وہ عوام کے اس چوری شدہ مینڈیٹ کی بازیابی چاہتے ہیں۔ اب اس سے ملتا جلتا ایک اور واقعہ بھی درپیش ہے۔ عمران خان نے تحریک انصاف میں انٹراپارٹی الیکشن کرائے۔ الیکشن ہوتے نتائج کا اعلان ہوا۔ ہارنے والوں کو اس الیکشن میں دھاندلی کی بے شمار شکایات تھیں۔ کوئی اکا دکا شکایت ہوتی تو نظر انداز کرنا ممکن تھا۔ شکایات کے ڈھیر پر چیئرمین عمران خان کو ریٹائرڈ جسٹس وجیہہ الدین کی صدارت میں ایک کمشن بنانا پڑا۔ بہت اچھی شہرت رکھنے والے جسٹس وجیہہ الدین نے انتہائی محنت سے الیکشن کے بارے میں رپورٹ تیار کی رپورٹ میں الیکشن کو سرے سے ہی غیر شفاف اور غلط قرار دے دیا گیا۔ اب تحریک انصاف کے کارکنوں کی طرف سے جماعتی عہدیداروں کو فارغ کر کے کچھ عارضی بندوبست کے اہتمام کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ اس سلسلہ میں وہی تمام باتیں دہرائی جا رہی ہیں جو عمران خان میاں نوازشریف کے استعفیٰ کے سلسلہ میں کہے جا رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے نوجوان رہنما زبیر خان نے کہا کہ تحریک انصاف کی موجودہ قیادت اپنا جواز کھو بیٹھی ہے۔ جسٹس وجیہہ الدین رپورٹ کے بعد اب پارٹی کو چاہئے کہ وہ پارٹی کو چلانے کے لئے عبوری سیٹ اپ کا بندوبست کرے۔ زبیر خان عمران خان سے بالکل ایسا ہی مطالبہ کر رہے ہیں جیسا عمران خان کو میاں نواز شریف سے ہے۔ عمران خان چاہتے ہیں کہ میاں نوازشریف استعفیٰ دیں تاکہ دھاندلی زدہ الیکشن کی شفاف تحقیقات کروائی جا سکیں۔ زبیر خان کا بھی یہی مطالبہ ہے کہ پارٹی قیادت عہدے چھوڑ دے تاکہ نئے پارٹی الیکشن شفاف طریقے سے ہو سکیں۔ گوجرانوالہ زندہ لوگوں کا شہر ہے۔ بھٹو کی پھانسی پر احتجاجاً خود سوزی کرنے والے چھ جیالوں میں سے تین کا تعلق گوجرانوالہ سے تھا۔ اب گوجرانوالہ میں عمران خان کے جلسہ کے لئے 19 نومبر کی تاریخ زیر غور ہے۔ اس سلسلہ میں صدر پنجاب تحریک انصاف اعجاز چودھری گوجرانوالہ آئے ہوئے تھے ٹکٹ ہولڈروں اور کارکنوں کا اجتماع تھا۔ بہادر سیاسی کارکنوں کے اس شہر میں ”گو نواز گو“ کے شدید موسم میں بھی ”گو اعجاز گو“ کے نعرے لگ گئے۔ بات چل نکلی ہے اب دیکھئے کہاں تک پہنچے پہلے سابق ضلعی صدر انصرنت نے اعجاز چودھری سے استعفے کا مطالبہ کر ڈالا۔ ان دنوں انصرنت پنجاب کسان ونگ کے صدر ہیں۔ یہ تحریک انصاف کے بانی رکن ہیں۔ گوجرانوالہ واہنڈو میں برسوں پہلے تحریک انصاف کا پہلا جلسہ کروانے کا اعزاز بھی انہیں حاصل ہے پھر سابق سٹی صدر عقیل ڈار بولے اور خوب بولے۔ انہوں نے اعجاز چودھری پر مالی کرپشن کے سنگین الزامات لگائے۔ اعجاز چودھری کی الیکشن میں ٹکٹوں کی فروخت کے الزامات سے جان چھوٹتی نظر نہیں آتی۔ کبھی نہ کبھی کہیں نہ کہیں یہ ذکر ضرور چھڑ جاتا ہے اب یہ بات بھری بزم میں عقیل ڈار لے بیٹھے تھے۔ عقیل ڈار نہ ستائش کی تمنا اور نہ صلے کی پرواہ‘ معرکہ دبنگ سے سیاسی کارکن ہیں۔ 14 اگست کے لانگ مارچ میں وہ عمران خان کے سکیورٹی انچارج تھے۔ لاہور سے اسلام آباد پہنچ کر وہ پندرہ دن مسلسل دن رات دھرنے میں رہے۔ ایک روزہ کے لئے اسلام آباد سے گھر آئے اور دھر لئے گئے۔ اکیس روز نظربند رہے۔ معافی مانگنے پر کئی دوسرے لوگوں کی طرح دوسرے تیسرے دن رہائی پا سکتے تھے۔ لیکن وہ دلیری اور پامردی سے نظر بندی کے دن کاٹتے رہے۔ اب عقیل ڈار بھی اعجاز چودھری سے استعفے کا مطالبہ کرنے لگے۔ وہ بھی انہیں جسٹس وجیہہ الدین رپورٹ کا حوالہ دے رہے تھے۔ جسٹس وجیہہ الدین رپورٹ کے منظر عام نے کے بعد اعجاز چودھری کو خود ہی پنجاب کی صدارت سے مستعفی ہو جانا چاہئے تھا۔ لیکن بدقسمتی سے ایسی صحتمند جمہوری روایات ہمارے ہاں پنپ نہیں سکیں۔ اب چیئرمین عمران خان کو جسٹس وجیہہ الدین رپورٹ پر عملدرآمد کروانے میں دیر نہیں کرنی چاہئے۔ اس طرح ان کا میاں نوازشریف سے استعفیٰ مانگنے کا اپنا کیس بھی کمزور ہوتا ہے۔

ای پیپر-دی نیشن