تعلیمی اصلاحات اردو کے بغیر بے سود
خبر یہ ہے کہ وزیراعظم ہاﺅس سے حکم نامہ جاری ہوا کہ ہائیر ایجوکیشن کمشن ملک بھر کے تمام تعلیمی نصاب کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کےلئے تعلیمی نصاب میں مثبت تبدیلیاں کی جائیں۔ ہدایت نامہ کے مطابق صوبائی حکومتوں سے مشاورت کے بعد اردو انگریزی اور مطالعہ پاکستان کے پرائمری سے یونیورسٹی کے نصاب میں تبدیلیاں لائی جائیں۔ ہر تعلیمی سطح میں ایسی ابواب شامل کئے جائیں جو ملکی ترقی قومی شناخت کے ساتھ ملک میں جمہوریت کے کلیدی کردار کی اہمیت اجاگر کر سکیں۔ حکم نامہ میں درج ہے کہ نصاب میں ایسی تبدیلی درکار ہے جس سے قومی بین الاقوامی تناظر میں آئین و جمہوری عمل لسانی معاشرتی اور ثقافتی تفریق اور خصوصیات کے حوالے سے نسل نو میں سمجھ اور ادراک کو وسیع کیا جائے۔ تجویز کیا گیا ہے کہ آئندہ کے نصاب میں آزادی اظہار میڈیا کی آزادی عدلیہ اور الیکشن پر مبنی باب شامل کرنے چاہئیں جس کے لئے ہائیر ایجوکیشن کمشن کو دو ماہ کی مدت دی گئی ہے تاکہ ماہرین تعلیم یونیورسٹیوں اور پبلی کیشنز اداروں سے مشاورت کرنے کے علاوہ نجی تعلیمی اداروں کو بھی شامل کیا جائے۔ اساتذہ کےلئے رہنما اصول ان کی جدید طریقوں سے تربیت سمیت غیر نصابی سرگرمیوں اور امتحانات کے حوالے سے اصلاحات وقت کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم کا بگڑتی تعلیمی صورتحال پر توجہ دینا خوش آئند عمل ہے۔ شاید کسی ہمدردنے روز چھپنے والی اخبار ی خبروں سے وزیراعظم کو آگاہ کیا ہو جس کے ردعمل میں وزیراعظم نے موجودہ حکم نامہ ہائیر ایجوکیشن کمشن تک پہنچا۔ عام طور پر تعلیم کے حوالے سے بڑی بڑی کانفرنسیں اور سیمینار وں میں تعلیم کی ترقی کے دعوے کئے جاتے ہیں مگر نتیجہ صفر نظر آتا ہے۔ سرکاری تعلیمی اداروں کی حالت زار پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی، کہیں عمارت نہ ہونے کے باعث کھلے آسمان کے نیچے قوم کے بچے سردی اور گرمی کی صعوبتیں برداشت کرتے ہیں تو کہیں اساتذہ موجود نہیں، کہیں بنیادی تعلیمی ضروریات اور سہولتیں ناپید ہیں۔ ایک وقت تھا کہ سرکاری تعلیمی اداروں میں داخلہ اعزاز سمجھا جاتا تھا مگر آج سرکاری تعلیمی اداروں کے بارے میں بڑی منفی رائے قائم ہو چکی ہے کیونکہ یہ ادارے اپنا معیار تعلیم قائم نہ رکھ سکے۔ پرائیویٹ اداروں نے تعلیمی سہولیات کے ساتھ اساتذہ زیادہ توجہ دیتے ہیں لہٰذا عوام سرکاری اداروں سے گریز کرتے ہوئے پرائیویٹ تعلیمی سسٹم کی جانب راغب ہوتے جا رہے ہیں۔ ایک تازہ خبر کے مطابق دو سال قبل پنجاب کے سکولوں میں بچوں کے داخلے کی تعداد ایک کروڑ دس لاکھ سے زیادہ تھی جسے بڑھنا چاہئے تھا وہ گھٹ کر اسّی لاکھ رہ گئی ہے یعنی اس عرصہ میں تیس لاکھ بچے تعلیمی اداروں کو چھوڑ گئے اور نئے بچے داخل نہ ہو سکے۔ آخر اس کا ذمہ دار کون ہے؟ جبکہ نجی تعلیمی ادارے فیسوں کے علاوہ دوسرے مندرجات میں عوام سے کثیر رقم وصول کرتے ہیں۔ یہ حادثہ حکومتی عدم توجہ کا شاخسار ہے۔وزیراعظم کا یہ فیصلہ قابل ستائش ہے مگر وزیراعظم ہاﺅس تک اس حقیقت کو کون پہنچا سکے کہ کبھی کسی قوم نے غیر زبان میں ترقی کرنے کی مثال نہیں ملتی۔ ڈاکٹر جاوید کبیر جو روس سے میڈیکل کی تعلیم حاصل کر کے پاکستان میں کام کر رہے ہیں بتاتے ہیں کہ روس کا ذریعہ تعلیم روسی زبان ہے وہاں پڑھا لکھا طبقہ جس میں ڈاکٹر، انجینئر اور سرکاری افسران کی اکثریت انگریزی بولنا تو درکنار اے بی سی سے واقف نہیں، صرف فارن سروس سے متعلق لوگ انگریزی زبان کا خصوصی کورس کرتے ہیں۔ روس میں جدید ترین ٹیکنالوجی کے ساتھ ہمہ وقت تحقیق و تخلیق کا کام جاری ہے مگر اپنی زبان میں بالکل اسی طرز پر جاپان اورچین کی مثال ہے انہیں بھی انگریزی نہیں آتی کیا انہوں نے ترقی کے مراحل و منازل طے نہیں کیں۔ برادر اسلامی ملک ترکی میں بھی اپنی زبان ہی ذریعہ تعلیم و تدریس ہے۔ روم اورسپین نے بھی اپنی زبان میں دنیا میں مقام حاصل کیا کیا فرانس اور جرمن نے اپنی زبان میں ترقی نہیں کی؟ کاش کوئی ہمارے سربراہان کے ذہنوں میں یہ حقیقت ڈال سکے کہ اگر ہم نے ترقی و خوشحالی کی شاہراہ پر گامزن ہونا ہے تو آئین پاکستان کا احترام کرتے ہوئے اردو کو دفتری عدالتی اور درس و تدریس کی زبان کا مقام دینا ہو گا۔ ہمیں جدید علوم کے حصول کےلئے وسیع پیمانے پر دارالترجمہ قائم کرنے ہونگے جس کے ذریعے پاکستان کا ہر خاص و عام کو جدید علوم تک رسائی ہو سکے تاہم موجودہ حالات کا جائزہ بتاتا ہے کہ جبراً انگریزی کے نفاذ سے ایک طرف ملک طبقاتی کشمکش کا شکار ہوتا جا رہا ہے تو دوسری جانب تعلیمی اداروں سے بچوں کے اخراج کی شرح روز بروز بڑھتی جا رہی ہے اور امتحانات میں طلبہ کے فیل ہونے میں اضافہ ملک کے مستقبل کو تاریک کر رہا ہے۔ قومی زبان تحریک کی رہنما فاطمہ قمرکا کہنا ہے کہ وطن عزیز میں انگریز ی مسلط کرنے کا ہولناک نتیجہ یہ سامنے آیا ہے کہ مقابلے کے امتحان کے نتائج 2013ءمیں 2% اور 2014ءمیں 3.3% رہے۔ اگر اشرافیہ کو ابھی بھی یہ خطرہ لاحق ہے کہ اس نتیجہ میں بھی کہیں کسی غریب یا کمی کا بیٹا بھی شامل ہو جائے گا تو اگلے سال مقابلے کے امتحان کو نہ صرف انگلینڈ منتقل کرا دیا جائے بلکہ یہ شرط عائد کردی جائے کہ اس میں شامل ہونے کی اجازت انہیں مل سکتی ہے جن کے پاس گریجوایشن کی ڈگری انگلینڈ ن یا امریکن ہوگی۔ فاطمہ کہتی ہیں کہ اردو کو آئین پاکستان قومی زبان کا مقام دیتا ہے جسے انتظامیہ مقننہ اور عدلیہ نافذ کرنے سے قاصر ہیں جبکہ یواین او اردو کو دنیا کی دوسری بڑی زبان قرار دے چکا ہے۔ امید ہے کہ مسلم لیگ کی موجودہ قیادت تاریخ میں اتنا بڑا داغ اپنے نام کے ساتھ پیوست کرنے سے گریز کرتے ہوئے اردو کو ہی تعلیمی دفتری اور عدالتی زبان قرار دے کر سرخرو ہو گی۔