پاکستانی ہائی کمشنر کو خوش آمدید
برطانیہ میں حال ہی میں تعینات ہونے والے پاکستان کے نئے ہائی کمشنر سید ابن عباس نے اپنی سرکاری ذمہ داریاں سنبھالنے کے فوراً بعد اگلے روز جو ”سفارتی محبت“ کا پہلا کارنامہ سرانجام دیا، وہ پاکستانی صحافیوں، کالم نگاروں اور اینکروں سے انکی باضابطہ تعارفی ملاقات تھی اس خصوصی تعارفی ملاقات کا اہتمام ہائی کمشن پر پریس اتاشی محمد منیر نے سفارتحانہ کے مرکزی ہال میں کیا تھاپاکستانی میڈیا کے اراکین سے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے سید ابن عباس نے سب سے پہلے برطانیہ میں مقیم صحافیوں اور کالم نگاروں کی جرا¿ت مندانہ پالیسی کی تعریف کرتے ہوئے انہیں مبارک باد پیش کی۔ انہوں نے سفارتخانہ کے حوالہ سے پاکستانیوں اور کشمیریوں کے مسائل کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جائے تاکہ کمیونٹی میں سفارتخانہ کا اعتماد بحال ہوسکے انہوں نے کہا کہ سفارتخانہ اور برطانیہ کے دیگر شہروں میں قائم تمام قونصل خانے پاکستانی کمیونٹی کا اثاثہ ہیں ہر کشمیری اور پاکستانی اپنے سفارتخانہ کا مالک ہے جبکہ ہم سفارتکار اور تو محض Custodianکاکردار ادا کرتے ہیں اس لئے سفارتخانے کے دروازے پر وقت ہر محب وطن پاکستانی کے لئے کھلتے ہیں۔ یہ آپ کا اپنا قومی گھر ہے، اس کی آرائش و زیبائش آپ کو اپنے حسن گفتار اور حسن عمل سے کرنی ہے تاکہ ہم اپنے اس قومی گھر کو دنیا میں Role Modelکے طور پر پیش کرسکیں۔ انہوں نے کہا کہ ہوسکتا ہے کہ سفارتخانے کے بعض شعبوں میں کچھ خامیاں اور کمزوریاں بھی ہوں جنہیں ہم نے اور ہماری صحافتی برادری نے یکجا ہوکر دور کرناہے انہوں نے صحافیوں کو فری ہینڈ دیتے ہوئے کہا کہ سفارتخانے میں کسی بھی نوعیت کی آپ اگر کوئی کمزوری یا خامی دیکھیں تو ہمیں فوراً آگاہ کریں تاکہ کمیونٹی کو شکایات کا موقع ہی فراہم نہ سکے۔ ہائی کمشنر نے کہا کے ہم ہر مسئلے کو خود میڈیا سے شیئر کریں گے پاکستانیوں اور کشمیریوں کی بے لوث خدمت، انکے جائز مسائل کا فوری حل ہماری اور لین ترجیح میں شامل ہوگا”ویزہ “امور سرانجام دینے والی نجی کمپنی”جیری“ کے بارے میں انہوں نے کہا کہ عوامی شکایات کا بلاشبہ ہمیں ادراک ہے تاہم میری یہ بھرپور کوشش ہوگی کہ ”جیری سروس“ سے Visa Reliefپر بات چیت کی جائے تاکہ پاکستانی اور کشمیری کمیونٹی کے مطالبات اور انہیں درپیش دشواریاں کا ازالہ ہوسکے ”نادرا کارڈ“ اور دیگر دستاویزات کی تصدیق کو مزید آسان بنانے کے سلسلہ میں انہوں نے اعلان کیا کہ کمیونٹی کیلئے ہفتے کے 5دن چونکہ مصروف ترین ہوتے ہیں اس لئے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اسی ماہ سے ”ہرماہ ہفتہ“ کے دن بھی سفاتخانہ کمیونٹی کو سروسز مہیا کرنے کا پابند ہوگا مگران سروسز میں پاسپورٹ سے متعلقہ امور شامل نہیں ہونگے۔برطانیہ میں جوان ہونے والی نسل کے بارے میں اظہار و خیال کرتے ہوئے انہوںنے کہا کہ انشاءاللہ دسمبر2014ءکو ہم ایک یوتھ کنونشن کے انعقاد کا جائیزہ لے رہے ہیں تاکہ پاکستان کی اس نئی نسل کو اپنے آبائی وطن قیام پاکستان کے مقاصد، دو قومی نظریہ اور دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے سلسلہ میں کئے حکومتی اقدامات کا جائزہ لینے میں آسانی ہوسکے۔سید ابن عباس نے کہا کہ معاشی استحکام دہشت گردی اور بے روز گاری کے خاتمہ، اور بجلی کے بحران کے حل کے لئے تمام پاکستانیوں کو اپنا کردار ادا کرنا پڑیگا جبکہ Trade Relationکو مزید مضبوط بنانا ہے۔ وقفہ سولات کے دوران صحافیوں کی جانب سے سید ابن عباس پر تابڑ توڑ سوالات بھی کئے گئے جنکے انہوں نے انتہائی خندہ پیشانی سے جواب دیئے اس سوال پر کہ سفارتخانہ کی پاسپورٹ اور نادرا بلڈنگ سے ملحقہ Basment میں قائم ٹائلٹوں کی ناگفتہ بر حالت شرمناک حد تک گندگی ٹائلٹ رولز اور Dissabled ٹائلٹوں سے محروم اس حصے سے کسی وقت کوئی بڑا حادثہ رونما ہوسکتا ہے ہائی کمشنر نے کہا کے لندن سفارتخانے میں تعینات ہوئے انہیں ابھی چند ہی ہفتے ہوئے اس لئے اس بارے میں وہ ابھی کچھ کہہ نہیں سکتے تاہم اگر ڈس ایبل ٹائلٹ نہیں اور بیسمنٹ ٹائلٹوں میں بچوں سمیت خواتین کو نیچے اترنا دشوار ہے تو اس بارے میں وہ ضرور اقدامات کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ وہ خواتین کے ہمراہ آئے بچوں کیلئے Play Areaبھی ناگزیز تھا چنانچہ میں نے اس منصوبے کو حتمی شکل دے دی ہے تاکہ بچے یہاں آکر بوریت محسوس نہ کریں۔ اب یہ بھی اتفاق ہے کہ سید ابن عباس Basement Toiletکے بارے میں اپنی بات چیت ابھی جاری رکھے ہوئے تھے کہ مجھے اس بلڈنگ کے سکینڈ فلور پر افسران بالا کیلئے مختص انتہائی صاف ، مخصوص، ائرفریشنر، کی مدہوش کردینے والی خوشبو سے مزین ٹائلٹ استعمال کرنے کا ڈرامائی انداز میں موقع مل گیا ”موہاگنی“ ٹائلڈ ایکسٹرا ٹائلیٹ پیپرز اور بہترین Shawerکی سہولتوں سے آراستہ اس غیر معمولی ٹائلٹ کو دیکھتے ہوئے کسی فائیو سٹار ہوٹل کے باتھ روم کا گمان گزرنے لگا؟ میں اس سوچ میں گم تھا کہ ایک طرف تو ہائی کمشن بلڈنگز کو پاکستانیوں کا اثاثہ قرار دیاجارہا ہے اور دوسری جانب اس سفارتخانے میں عوام اور ڈپلومیٹس کے مابین دوہرے معیار کی آبیاری بھی جاری ہے غیر سرکاری سفیروں سے ان کے قومی گھر میں سرکاری سفیروں نے اگر یہی معیار قائم رکھنا ہے تو پھر محب وطن پاکستانیوں کے الجھے مسائل کا حل کیسے ممکن ہوسکے گا یہ سوال میں اب اپنے عزت ماب سید ابن عباس کے لئے چھوڑے جارہا ہوں اس امید پر کہ سفارتخانہ میں پائے جانے والے ”دوہرے معیار“ کا جلد خاتمہ کرڈالیں گے۔