جماعت اسلامی اور سراج الحق
پاکستان میں اس وقت عوام میں بیداری کا رجحان عروج پر ہے، حالانکہ یہ حالات اور مہم ہم الیکشن سے پہلے دیکھتے ہیں، مگر ایسا لگتا ہے کہ اس بار الیکشن کمپین الیکشن کے فوری بعد ہی شروع کر دی گئی ہے اور ایسا لگ رہا ہے کہ آنے والادن پہلے سے زیادہ گرمی کے ساتھ طلوع ہو رہا ہے۔ تحریک انصاف اور طاہر القادری کی عوامی تحریک نے جو ماحول گرماےا ہے، اب حکومتی جماعت کے علاوہ ہر سیاسی اور مذہبی جماعت بھی اپنا لوہا منوانا چاہتی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے کراچی میں شو آف کیا جبکہ جماعت اسلامی ملک گیر پروگرامات کے ساتھ ساتھ اب ایک طویل عرصے بعد ”کُل پاکستان اجتماع عام“ منعقد کرنے جا رہی ہے۔ جماعت اسلامی کا اجتماع عام بلاشبہ پاکستان کی سیاسی اور مذہبی جماعتوں میں تعداد اور نظم وضبط کے حوالے سے ایک منفرد اجتماع ہوتا ہے۔ اس بار یہ اجتماع ایک طویل عرصے بعد منعقد ہو رہا ہے۔
سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان سید منور حسن کی مدتِ امارت میں یہ اجتماع منعقد نہیں کیا جا سکا، جبکہ ان کے پیشرو قاضی حسین احمد ہر تین چار سال بعد کل پاکستان اجتماع عام منعقد کرتے رہے تھے۔ 2008ءمیں ہونے والے اجتماع عام میں قاضی حسین احمد کے یہ الفاظ آج بھی یاد ہیں جب انہوں نے الوداعی خطاب میں کہا تھا: ”عزیزو! آپ سے جدا ہونے کو دل نہیں چاہتا، لیکن اب جنت میں ملاقات ہو گی۔“ اور آج جب جماعت اسلامی اجتماع منعقد کر رہی ہے تو قاضی حسین احمد اس اجتماع میں موجود نہیں ہوں گے۔
جماعت اسلامی کے اس اجتماع عام میں عالمی اسلامی تحریکوں کو بھی دعوت دی جا رہی ہے جبکہ ملکی سطح پر بھی دعوتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ یقیناً یہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کی امارت کے بعد ایک اہم پروگرام ہو گا، جس سے وہ ایک مثبت پیغام دے سکیں گے۔ اس اجتماع کی ایک خاص بات یہ ہو گی کہ پاکستان میں موجودہ سیاسی حالات کے پیش نظر جماعت اسلامی اپنی ملک گیر ”تکمیل پاکستان“ کے نام سے سیاسی مہم کا آغاز کرے گی۔ دوسرا مقصد ینگ جنریشن کی سیاسی تربیت ہے۔ تیسرا اس میں خواتین کو بھی آگے لانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ جماعت اسلامی کا یہ اجتماع عام دو لحاظ سے خاص اہمیت کا حامل ہے۔
اس وقت ملک میں سیاسی افراتفری عروج پر ہے۔ جماعت اسلامی کی اہمیت اس لیے بڑھ گئی ہے کہ تحریک انصاف اسے کسی بھی قیمت پر اپنے ساتھ ملانا چاہتی ہے، جبکہ حکومت کے لیے جماعت اسلامی کا تحریک انصاف کے ساتھ جانا اور اسے افورڈ کرنا ممکن نہیں ہو گا۔ یہ اجتماع عام جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد مرحوم کے دور میں ملک میں درپیش چیلنجز کی وجہ سے آج سے سات آٹھ سال پہلے بھی کیا گیا تھا۔ جماعت اسلامی اس عوامی جدوجہد کو تکمیل پاکستان تک جاری رکھنا چاہتی ہے اور سیاسی گرما گرمی کو کیش کرنا چاہتی ہے۔اس اجتماع عام میں کیا جماعت اسلامی اپنی مہم میں ”گو امریکا گو“ کے بعد اب ”گو نواز گو“ کا نعرہ لگائے گی، یہ دیکھنا باقی ہے۔ مولانا مودودی جماعت اسلامی کے فکری رہنما تھے۔ میاں طفیل صاحب بھی تقریباً اسی راستے پر چلتے رہے جبکہ قاضی حسین احمد نے جماعت اسلامی کو ایک عوامی رنگ دیا۔
انہوں نے 1992ءمیں ایک نیا تجربہ ”پاکستان اسلامک فرنٹ“ کے نام سے کیا۔ گویا یہ تجربہ اس وقت تو کامیاب نہیں ہوا، لیکن ترکی اور مصر میں اسلام پسندوں نے اسے آزمایا اور کامیابی کے ساتھ آگے بڑھے۔ جماعت اسلامی کے موجودہ امیر سراج الحق کو بھی قاضی حسین احمد کا سیاسی جانشین کہا جاتا ہے۔ سراج الحق بھی عوامی طرزِ سیاست پر یقین رکھتے ہیں اور ایسا دکھائی دیتا ہے کہ وہ قاضی صاحب کے ادھورے خوابوں کی تکمیل چاہتے ہیں۔ یہ بہت آسان کام نہیں، لیکن جس طرح قاضی حسین احمد کو اپنی زندگی میں جماعت اسلامی کے نظریاتی ارکان کی طرف سے بے پناہ مسائل اور رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا، اب ایسا لگتا ہے کہ جماعت اسلامی کے موجودہ امیر کو ان مسائل کا سامنا زیادہ نہیں کرنا پڑے گا۔ لیکن یہ مشکل بہرحال موجود ہے کہ پاکستان مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے بعد ایک تیسری جماعت کے لیے پاکستان میں جگہ موجود تھی اور اسے عمران خان تحریک انصاف کی شکل میں پُر کرچکے ہیں۔ عمران خان بڑی تعداد میں نوجوانوں، ایلیٹ کلاس کی خواتین اور پڑھے لکھے طبقے کو اپنی طرف مائل کرچکے ہیں۔ لہٰذا ایسے موقع پر جماعت اسلامی اور سراج الحق کے لیے زمینی حقائق کو سامنے رکھ کر کوئی نیا راستہ تلاش کرنا پڑے گا۔
جماعت اسلامی کے اجتماع عام سے بہت سے لوگ یہ اُمید لگارہے ہیں کہ وہ اپنے آئندہ کسی اہم لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔