کربلا کا درس، قیادت، قربانی، قوم!
خواب دیکھنا بری بات نہیں، خواب کی تعبیر حاصل کرنے کیلئے غلط راستہ اختیار کرنا البتہ برا ہوسکتا ہے۔ اگر خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کیلئے غلط راستہ منتخب کرلیا جائے تو انسان کے خواب اُسے سرابوں کے پیچھے لگادیتے ہیں، سراب دھوکے کے سوا کچھ نہیں دیتے اور دھوکا انسان کو رنج و غم کے حوالے کرکے خود ہوا ہوجاتا ہے، یوںانسان زندگی میں دکھ کے سوا کچھ بھی حاصل نہیںکرپاتا۔ درست راستہ اختیار کرنے کے بعد دیگر مراحل شروع ہوتے ہیں کہ اگر انسان اپنی منزل مقصود کیلئے باقی تمام چیزیں قربان کرنے کو تیار ہوجائے توپھر وہ اپنی منزل بھی حاسل کرسکتا ہے، لیکن مسئلہ تو یہ ہے کہ انسان ابدی عظمت تو حاصل کرنا چاہتا ہے لیکن اس کیلئے وہ اپنی چھوٹی چھوٹی بڑائیاں چھوڑنے کوتیار نہیں ہوتا۔ انسان ہمیشہ سکون سے تو رہنا چاہتا ہے، لیکن اس مقصد کیلئے وہ اپنی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو قربان کرنے کا حوصلہ اکٹھا نہیں کرپاتا۔ انسان اپنے لوگوں کو قوم بنتے تو دیکھنا چاہتا ہے لیکن اس کیلئے وہ اپنی قومیتوں پر فخر کرنا نہیں چھوڑتا، بلکہ اس کے برعکس قومیتوں پر فخر کرنے والے کہتے ہیں کہ قوموں کی زندگی میں ساٹھ ستر برس کچھ نہیں ہوتے ، بھیِڑ کو قوم بننے میںتو صدیاں لگ جاتی ہیں۔ یقینا ایسا ہی ہوتا ہے، لیکن جب بھیڑ قوم کی شکل اختیار کرجائے توپھر قوموں کی زندگی میں ایک ایک دن اور ایک ایک لمحہ بہت اہم ہوجاتا ہے!ماضی میںیہ لمحہ گنوانے والی قومیںتاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دی گئیں۔جس نے یہ لمحہ گنوا دیا وہ فنا کے گھاٹ اتر گیا اور جس نے اس لمحے کو اپنے قبضے میں کرلیا، سمجھیں کہ وہ فلاح پاگیا۔ ورنہ اہل رومہ کی عظمت تو اب بس قِصوں کہانیوں میں ہی ملتی ہے۔اہل فارس آج بھی اپنی سطوت کے نشان ڈھونڈ رہے ہیں۔ دیومالائی داستانوں والے اہل یونان سے دنیا کی قیادت چھِنے دو ہزار سال ہوچلے ہیں۔ 400 سال تک یورپ کے ہزاروں نوابوں(Dukes) سے خراج وصول کرنے والے تُرک آج یورپی یونین کی رکنیت کیلئے کاسہ پھیلائے بیٹھے ہیں۔سکندر، دارا،قیصر اور تیمور کی قومیںتاریخ کے اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مارتی پھرتی ہیںاور اب کوئی ”پدرم سلطان بود“ کہنے والا بھی باقی نہیں رہا۔ زمیں کھاگئی آسمان کیسے کیسے!!
تاریخ کتنی عظیم قومیں نگل چکی، اس کی وجہ کچھ اور نہیں بس اتنی سی ہے کہ جب قوموں کی قیادت میں قربانی دینے کا حوصلہ نہ رہاتو ”ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا“والا نتیجہ نکلا۔پاکستان کا بنیادی مسئلہ یہی رہا ہے کہ یہاں جو بھی حکمران آیا اس نے خود کو لازم و ملزوم سمجھ لیا۔وہ فوجی حکمران جن کا خمیر اقتدارکے لالچ سے گندھا تھا، اُن میں تو یہ خبط باالعموم زیادہ ہی پایا گیا کہ کوئی دوسراحکمران اُن سے بہتر انداز میں ملک کونہیں چلاسکتا ۔سول حکمران بھی کسی سے کم نہ رہے، آمریت کی نرسریوں میں پلنے والی سیاسی قیادت نے بھی قربانی کا جذبہ اپنے قریب پھٹکنے ہی نہ دیا۔ اگر پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت نے اپنے کردار و عمل سے ماضی میں قربانی کی مثالیں پیش کی ہوتیں تو قیام ِپاکستان کے مقاصد بہت پہلے حاصل کیے جاچکے ہوتے، پاکستان کو اسلام کے سنہری اصولوں کی تجربہ گاہ بنایا جاچکا ہوتا، آج بحیثیت قوم ہم ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کی بجائے پرانی غلطیوں کو ہی نہ دہرا رہے ہوتے، معاشی ،سماجی، سیاسی اور عسکری بحرانوں سے نمٹنے کیلئے ہم نے مختلف شعبوں میںپائی جانے والی ”کمیوں“ کو دور کرنے کیلئے کوئی نہ کوئی حکمت عملی تو اختیار کی ہوتی، لیکن ہم اپنی خامیوں کو سامنے رکھتے ہوئے آگے نہیں بڑھے،ہم کوتاہیوں میں اس قدر ثقیل اور مستقل مزاج واقع ہوئے کہ بوقت ضرورت ہم اپنی طاقت کومرتکز اور مجتمع کرنے کی بجائے منتشر رہنے پر مصر رہے، وقت کے ساتھ ساتھ مختلف شعبوں میں ہم اپنی استعداد کار نہ بڑھاسکے،یہی وجہ ہے کہ بعض شعبوں میں ہم خود کو بہت زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کرتے رہے جبکہ بعض شعبوں میں اپنی کم مائیگی کے ہاتھوں مار کھاگئے۔ اگر آج بھی پاکستان مسائل سے دوچار ہے توان میں سے بہت سے مسائل ہمارے اپنے پیدا کردہ ہیں۔ پاکستان اگر ایک ایٹمی ملک ہونے کے باوجود مسلسل بحرانوں اور چیلنجز کی زد میں ہے تو اس کی وجہ خود کو ناگزیر قرار دینے والے وہ رویے ہی ہیں جو بحیثیت مجموعی ہمارے خون میں دوڑ رہے ہیں۔اگر آج مشرق کے بعد ہماری مغربی اور شمالی سرحدوں پر بھی دھمکیوں کا راج نظر آنے لگا ہے تو اس میں مخالفین کی بجائے ہمارا اپنا قصور زیادہ ہے، ہم اپنے آباو اجدادکے وہ سنہری اصول بھول گئے، جن کا پرچم اٹھاکر انہوں نے دریاو¿ں میں گھوڑے دوڑانے سے بھی دریغ نہیں کیا اور وہ سنہرا اصول کسی بھی مشکل صورتحال میں بلاشبہ قربانی کیلئے سب سے پہلے خود کو پیش کرنے کا اصول تھا۔
قارئین محترم!! ہمارے آج کے سارے مسائل، ساری پریشانیاں، سارے چیلنجز، ساری الجھنیں قربانی کے بھلائے ہوئے اُسی درس کانتیجہ ہیں، جس کی وجہ سے ہم نے اپنی انسانی و سائل کی بے پناہ طاقت کو لسانی، علاقائی، صوبائی اور فرقہ وارانہ گروہوں میں بکھرجانے دیا؟ہم مسلم اخوت اور پاکستانی بھائی چارے کو پانی کی وہ دھارنہ بناسکے، جو دشمن کے مذموم عزائم کے پتھر میں سوراخ کرسکے۔ ہم نے اپنے مادی وسائل کو خام سے کندن بنانے کیلئے سائنس و ٹیکنالوجی کی بھٹیاں نہیں سلگائیں؟ہم یہ بھول گئے کہ عوام کی قربانی سے ملک اور ریاستیں تو وجود میں آجاتی ہیں لیکن لوگوں کے ہجوم عوام کی قربانی سے نہیں بلکہ قیادت کی قربانی سے قوم کا روپ دھارتے ہیں۔ کربلا کے میدان میں نواسہ رسول ﷺ حضرت حسینؓ نے اپنے عمل اور کردار سے جو درس دیا، افسوس ہم وہ درس بھی بھول گئے، بلکہ اُس درس کو بھی اپنی اپنی دکانیں چمکانے اور خود کو ناگزیر ثابت کرنے کیلئے استعمال کرنے لگ گئے۔ چودہ سو سال پہلے میدان کربلا میں نیزے پر چڑھا جگر گوشہ بتول ؓ کا سرایک ہی پیغام دے رہا تھا کہ قیادت قربانی دے تو قوم بنتی ہے!