غم کے دنوں میں اچھی خبر اور ....؟
ایک ”کربلا“ ہر سال آتا ہے اور ایک ”کربلا“ برسوں سے دل کے اندر بسا ہوا ہے، ایک ”شام غریباں“ جمہوریت کے نام پر عوام کا مقدر بنی ہوئی ہے اور ایک ”شام غریباں“ آج میری زندگی میں اتری ہوئی ہے۔ غم و حزن اداسی، بے بسی اور ملال کی انتہاﺅں میں ایک اچھی خبر بڑے طویل عرصہ بعد سننے کو ملی، ”پٹرولیم مصنوعات“ کی قیمتوں میں مثالی کمی اگر یہ کام ڈیڑھ سال قبل ہو جاتا تو نہ انتشار پھلتا، نہ دھرنے جنم لیتے، بقول ”وزیراعظم“ دھرنوںکے باوجود قیمتوں میں کمی کی، ”نہیں جناب“ دھرنوں کے باوجود نہیں بلکہ دھرنوں کی وجہ سے پہلی مرتبہ عوام کو ریلیف ملی ہے، دعا ہے کہ ”حکومت کمزور“ ہی رہے اسی دباﺅ میں کام کرنے والی حکومت عوام کے مفاد میں ہے، ”چند گھنٹوں“ کے وقف کے بعد ”وزرائ“ پر بیان بازی پر اتر آئے۔ ”قیادت“ کابینہ ممبران، لیڈرز کو بولنے سے منع اور کام کرنے کی ہدایت جاری کرے۔ کہیں اچھے فیصلہ کو ”بیان بازی“ کی نظر بد نہ کھا جائے۔ قارئین اچھے فیصلہ، غم کے دنوں میں ملنے والی خوشخبری عوام تک پہنچنے میں رکاوٹوں کا سامنا کر رہی ہے۔ ”یک نومبر“ کو ہم پٹرول لینے جہاں بھی پہنچے، پمپس بند تھے، گاڑیوں کی لمبی لائین اور لوگوں کے جھگڑے کے مناظر دیکھنے کو ملے، ہر جگہ عوام خوار ہوتی دیکھی، کمی کے تناسب سے ٹرانسپورٹ کرایوں میں کمی نہیں ہو پائی، دوسری طرف ”ضلعی انتظامیہ“ کی جانب سے جاری کردہ سرکاری نرخ نامے میں ایک دن میں سبزیوں کی قیمتوں میں 7 روپے تک اضافہ کردیا گیا ہے، پٹرول کی قیمت میں اضافہ کا اطلاق تو اس دن ہو جاتا ہے مگر ”کمی“ عوامی مصائب میں مزید پہاڑکھڑے کردیتی ہے، پاکستان کا معاشی نظام ”ڈنگ ٹپاﺅ“ بنیاد پر استوار ہے۔ اس نظام کی بہتری یا اس میں اصلاح کی گنجائش اس لئے ممکن نہیں کہ فیصلے اقتدار کو خطرہ یا دوام کی بنا پر کئے جاتے ہیں فری مارکیٹ اکانومی کا نظام بغیر کسی چیک اینڈ بیلنس کے کھڑا کیا گیا۔ اوپر سے ریگولیٹری فریم ورک کی کمزوری ہے کہ مارکیٹ میں ایک مرتبہ جس چیز کی قیمت بڑھ جائے اس کو پرانی سطح پر واپس لانا ممکن نہیں ہوتا۔ یہ بھی حکومتی نااہلی میں گنا جاتا ہے۔ پٹرول تو یقینا مقرر کردہ قیمت پر دستیاب ہو جائے گا اب اس کے مثبت اثرات عوام کی زندگیوں تک پہنچنے چاہیں۔ یہ اس صورت ممکن ہے کہ پرائس کنٹرول کمیٹیوں، انتظامی سربراہان کو متحرک کیا جائے۔ چند روز چھاپوں، پکڑ دکھڑ سے کچھ نہیں ہوگا۔ روزانہ کی بنیاد پر چیک کا نظام فعال کریں۔ صوبوں کو محض خط لکھنے سے مہنگائی کم نہیں ہوگی۔ مہنگائی سانپ کی طرح ڈس رہی ہے۔ اس کے ساتھ بجلی، گیس ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے، بغیر کسی تعطل کے فراہمی اور قیمتوں میں کمی عوام کی بنیادی، جائز مطالبہ ہے۔ احسن ہوگا کہ پٹرولیم، گیس، بجلی کی قیمتوں کو دو سال کیلئے منجمد کردیں تبھی ملکی معیشت کی گاڑی چلے گی۔ ملکی سرمایہ گردش میں آئے گا تو لازمی طور پر بیرونی سرمایہ بھی آئے گا۔ ”سٹاک مارکیٹ“ میں بیرونی سرمایہ کی آمد، معاشی نقطہ نظر سے ترقی ناپنے کا ٹھوس آلہ نہیں، ترقی وہ ہے جو چہروں سے جھلکے، طرز زندگی رہائش سے جھانکے انفراسٹریکچر بولے۔ ڈیڑھ سال بعد اتحادی بھی بیٹھ گئے،”لاٹھی“ گولی کی سرکار نہیں چلے گی، کا نعرہ لگانے پر مجبور ہو گئے تو یہ بھی دباﺅ کی سیاست کا کارنامہ ہے۔ ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں، سو اب بھی کردی مگر اب حالات بہت بدل چکے ہیں۔ اخباری خبر اور حقیقی زندگی میں نمایاں تفاوت پیدا ہو چکا ہے، حکومت اور گوالوں کے مابین ایک معاہدہ کے تحت دودھ ”65 روپے“ فی کلو میں بیچا جائے گا، معاہدے ہونے کی خبر تو چھپ گئی مگر عملدرآمد کہاں ہو رہا ہے۔ کچھ علم نہیں کیونکہ ہم آج بھی ”90روپے“ میں دودھ خرید رہے ہیں۔ ”بجلی“ کے نئے منصوبوں کے بغیر دھچکے کھاتی معیشت کو استحکام کی راہ پر ڈالنا اور مہنگائی کم کرنے کا ارادہ مغالطہ ہو گا، نئے منصوبے شروع کرنے کی بجائے مارکیٹوں کو 8 بجے بند کرنے کو ”تاجر برادری مسترد کرچکی ہے۔ وقت پٹاﺅ فیصلے نفرت ابھارنے کا موجب بنتے ہیں۔ اس فیصلہ سے انڈسٹری ایکسپورٹ کا ہدف حاصل کر پائے گی اور نہ ہی داخلی پیداوار میں کمی کو روک سکے گی۔ ”ورلڈ بینک“کا تجزیہ ہے کہ سازگار صنعتی و تجارتی ماحول کے حامل ممالک کی عالمی درجہ بندی میں پاکستان مزید ایک نمبر پیچھے چلا گیا ہے، کاروبار میں حائل ”دشواریوں اور ٹیکس کلچر بھی اس فیصلہ کی بنیاد بنا ہے۔ ”ادارے کے مطابق“ ارکان اسمبلی کی اوسط دولت 9 لاکھ ڈالر یعنی 9 کروڑ روپے سے زائد ہے لیکن ٹیکس دینے والے گنتی میں بہت کم ہیں جبکہ اصل صورتحال زیادہ مخدوش ہے۔ توانائی کی بدترین کمی غربت میں روز افزوں اضافہ کا باعث بن رہی ہے۔ ہمارا نہیں خیال کہ پٹرول کی قیمت میں کمی آسمان کو چھوتی مہنگائی کو کم کرسکے گی۔ ملکی ترقی کیلئے، میگا پروجیکٹس کی اہمیت سے انکار نہیں مگر یہ پوچھنا حق سمجھتے ہیں کہ عوام کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی اور روز مرہ استعمال کی اشیاءکی آسان خریداری کے لئے کیا منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ مہنگائی کے خاتمہ کا کیا حل نکالا جا رہا ہے۔ معاشی عدم مساوات کو ختم کرنے، روز گار کے نئے مواقع پیدا کے واسطے فیصلے کب عملی صورت اختیار کریں گے۔ ایک عام آدمی بغیر کسی دباﺅ، رکاوٹ کے اپنا کاروبار کب کرنے کے قابل ہوگا؟