آسٹریلیا میں کھیلوں کے فروغ کیلئے خواتین کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ
لندن (بی بی سی) آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں گذشتہ ہفتے منعقدہ ایک کانفرنس میں یہ بات سامنے آئی کہ آسٹریلیا میں کھیل کی بقا اور اس کے فروغ اور اسے منافع بخش بنانے کے لئے خواتین کا شامل کیا جانا ضروری ہے، خواہ وہ کھلاڑی کی حیثیت سے ہو، ناظرین کی حیثیت سے یا کلب اور مقابلہ جاتی مقابلوں کے اہلکار کی حیثیت سے۔کرکٹ کو مثال کے طور پر پیش کیا گیا کہ اگر اسے نئے اور زیادہ ناظرین نہیں ملے تو اس کھیل کے مر جانے کا خطرہ ہے۔کرکٹ آسٹریلیا کی بگ بیش لیگ (بی بی ایل) کے اینتھنی ایورارڈ نے ایشیا پیسیفک سپورٹس اینڈ ویمن کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کرکٹ کا مختصر روپ ٹی20 ، جو کہ آسٹریلیا کا پسندیدہ کھیل کہلاتا ہے، بطور خاص خواتین اور بچوں اور مختلف قسم کے نسلی طبقوں کو کرکٹ کی جانب متوجہ کرنے کے لئے شروع کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ بی بی ایل کے پس پشت یہ مقصد تھا کہ ایسی خواتین جنہوں نے کبھی کرکٹ میچ نہیں دیکھا ہو ان کی دلچسپی حاصل کرکے ’اسے اہل خانہ کا پسندیدہ کھیل بنا دیا جائے۔‘آسٹریلوی فٹبال کو بھی خواتین کی ضرورت آن پڑی ہے۔ فٹبال فیڈریشن آسٹریلیا (ایف ایف اے) کے چیف ایگزیکٹو ڈیوڈ گیلپ کا کہنا ہے کہ 35 سال سے زیادہ عمر کی خواتین فٹبالر کی زبردست کمی ہے۔انہوں نے کہا کہ خواتین فٹبال میں اس لئے دلچسپی لیتی ہیں کہ ’اس میں گیند کو کھیلا جاتا ہے نہ کہ کھلاڑی کو‘ اور اس میں جانے کے لئے جسمانی وضع قطع کو کوئی دخل نہیں۔گیلپ نے کہا کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ خواتین اور لڑکیاں بھی اسی طرح محسوس کریں جیسے مرد محسوس کرتے ہیں۔‘آسٹریلیا رگبی یونین کے سربراہ بل پلور نے تسلیم کیا کہ کھیل کے میدان میں ہر سطح پر مردوں کا تسلط ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ خواتین کی رگبی ٹیم سیونز کامیاب ترین ٹیم ہے اور دنیا میں دوسرے نمبر پے لیکن اس کی تشہیر اچھی طرح نہیں کی گئی۔سڈنی ایف سی میں اے لیگ کلب کے بورڈ میں واحد خاتون اور ریبل کمپنی کی سربراہ ایریکا برچ کا کہنا ہے کہ سپورٹس کی بقا کے لئے خواتین اور ڈالر کا ہونا انتہائی ضروری ہے۔