کرکٹ میں دیکھنے اور سننے میں سب اچھا
پاکستان کرکٹ ٹیم کی آسٹریلیا کے خلاف تاریخی کامیابی سے پاکستان کرکٹ کے منصوبہ سازوں نے بھی سکھ کا سانس لیا ہے۔ جان میں جان آئی ہے۔ ٹیسٹ میچوں میں نتیجہ ون ڈے سیریز جیسا ہوتا تو سازشوں کا نیا بازار گرم ہو جاتا کئی گرونیں کٹ جاتیں۔ کرکٹ کیرئیر ختم ہو جاتے جسے کھوٹا سکا سمجھا جا رہا تھا وہی کام آ گیا، پی سی بی کے تھنک ٹینک کی نظر میں مردہ گھوڑے یونس خان نے قومی ٹیم کے تن مردہ میں جان ڈال دی۔ یونس خان نے اپنی بلے بازی سے ٹیم کا ماحول اور سوچ بدل ڈالی۔ سب نے رنز کئے اور خوب نام کمایا مصباح الحق کے شکار کے لئے تمام شکاری اپنا سا منہ لئے رہ گئے۔ جن لوگوں نے انہیں ’’ٹک ٹک‘‘ کا خطاب دیا تھا۔وہی اب انہیں با امر مجبوری ’’ بوم بوم‘‘ کہہ رہے ہیں۔ مصباح الحق نے پٹاخ پٹاخ کینگروز کو مارا اور اپنے ہموطنوں نے بھی اس جواب کو خوب محسوس کیا۔ ٹیسٹ میچوں میں تیزترین سنچری کا ریکارڈ برابر کر کے اپنے ناقدین کو بھرپور جواب دیا۔ وہ ملکی تاریخ کے کامیاب کپتانوں میں بھی سرفہرست آگئے اس کے علاوہ کئی ایک ریکارڈ بھی اپنے نام کئے۔ جیت کے بعد کا سماں بہت خوش کن ہے۔ سب اچھا اچھا سننے کو مل رہا ہے۔ اس فتح نے ایک مرتبہ پھر ثابت کیا ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے ٹاپ آفیشلز جو مرضی کرتے رہیں ان کی کارکردگی قومی ٹیم کی گرائونڈ میں کارکردگی سے مشروط ہے۔ٹیم ہار جاتی تو سب یہ کہتے کہ شہر یار خان اور نجم سیٹھی کے مابین اختلافات کا خمیازہ ہمیں ٹیم کی ناکامی کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے، دو عہدے رکھنے والوں پر بھی خوب تنقید ہوئی، لیکن اب تنقیدی تو بچارے وقتی طور پر خاموش ہیںیوں ثابت ہوا کہ کرکٹ ٹیم اگر گرائونڈ میں عمدہ کھیل کا مظاہرہ کرے گی تو پی سی بی میں اہم عہدوں پر موجود افراد تنقید و تبدیلیوں سے بچ سکتے ہیں ورنہ مضبوط سے مضبوط سمجھا جانے والا عہدیدار بھی زیادہ دیرتک قائم نہیں رہ سکتا۔ ٹیم کی عمدہ کارکردگی ہی آفیشلز کے مستقبل کی ضمانت ہے۔ موجودہ کرکٹ بورڈ میں کئی بڑے اور تجربہ کار نام شامل ہیں۔ کئی ایک مواقع پر یوں محسوس ہوتا ہے کہ کرکٹ بورڈ میں اعلیٰ سطح پر چند شخصیات میں اختلافات ہیں۔ بعض ماہرین کے مطابق کرکٹ بورڈ کو ایک نہیں ’’دو چیئرمین‘‘ چلا رہے ہیں۔ ایک چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ شہریار خان اور دوسرے چیئرمین ایگزیکٹو کمیٹی مسٹر نجم عزیز سیٹھی۔ واقفان حال بتاتے ہیں کہ دونوں اپنی اپنی اتھارٹی منوانے کی حیثیت اور خواہش بھی رکھتے ہیں اور اس ضمن میں کچھ نہ کچھ ضرور کرتے رہتے ہیںدونوں کے کام کرنے کے انداز مختلف ہیں اور دونوں ہی اپنے اپنے گروپ رکھتے ہیں۔ چونکہ دونوں ہی تجربہ کار اورسمجھدار ہیں، سمجھتے ہیں کہ یہاں رہنا ہے تو پھر ’’ برداشت‘‘ کی پالیسی کو اپنانا ہو گا اور دونوں ہی اس پالیسی پر عمل پیرا بھی ہیں۔ قطع نظر اس کے کہ شہر یار اور نجم سیٹھی کے مابین کوئی سرد جنگ ہے۔ قومی ٹیم کی حالیہ کامیابیوں نے دونوں چیئرمینوں کو بھی مضبوط کیا ہے۔ مصباح الحق کو بھرپور انداز میں سپورٹ کر کے شہریار خان نے مستقل مزاجی کا ثبوت دیتے ہوئے سازشی عناصر کو خاموش کروایا ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی واضح کر دیا کہ کرکٹ بورڈ کو دو نہیں ایک ہی چیئرمین چلا رہا ہے اور وہ میں ہوں۔ پی سی بی میں تمام کام کرنیوالی تمام کمیٹیاں مجھے جوابدہ ہیں یوں ان کی اتھارٹی ثابت ہوتی ہے۔مصباح کو سپورٹ کر کے کامیابی کا کریڈٹ بھی ان کو جاتا ہے۔
دوسری طرف کرکٹ بورڈ کی ایگزیکٹو کمیٹی کے چیئرمین نجم سیٹھی اپنے دور میںکئی ایک اہم افراد کو دوہری ذمہ داری عنایت کر چکے تھے ٹیم کی حالیہ کارکردگی کے بعد یقیناً ان کو حوصلہ ملا ہو گا کہ معین خان سمیت تمام منتخب کردہ افراد نے دونوں ذمہ داریاں عمدہ و احسن طریقے سے نبھائی ہیں۔ یوں کرکٹ بورڈ کے خزانے پر بوجھ بھی کم ہوا ہے، اس لئے انکا انتخاب درست ہے۔ ہو سکتا ہے دو مضبوط اور اہم افراد کے مابین ’’پاور گیم‘‘ چل رہی ہو لیکن یہ بات طے ہے کہ ’’چیئرمین‘‘ ایک ہو یا دو عزت اور سکون کے ساتھ تب ہی چلیں گے جب قومی ٹیم کی کارکردگی اور مجموعی نتائج اچھے ہوں ۔