چیف الیکشن کمشنر کی تقرری پر مشاورت تیز: پرویز رشید‘ خورشید شاہ کے سیاسی رہنمائوں سے رابطے
اسلام آباد + لاہور (نیٹ نیوز+ نوائے وقت نیوز+ خصوصی نامہ نگار) مستقل چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کے حوالے سے مشاورتی عمل تیز ہو گیا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن لیڈر نے مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں سے علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کیں اور انہیں تقرری کے حوالے سے اعتماد میں لیا ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ نے چیف الیکشن کمشنر کے لئے 4 نام پیش کئے ہیں۔ جماعت اسلامی نے بھی جسٹس (ر) ناصر اسلم زاہد کی حمایت کر دی ہے۔ تحریک انصاف پہلے ہی ناصر اسلم زاہد کا نام دے چکی ہے۔ سپریم کورٹ نے چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کے لئے 13 نومبر تک کی مہلت دے رکھی ہے اور اس حوالے سے سیاسی رابطوں میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ وفاقی حکومت 13 نومبر سے قبل چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کے لئے سرگرم ہو گئی ہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کیلئے سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لینے کی ذمہ داری وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید کو سونپ دی ہے۔ پرویز رشید نے وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کے درمیان مشاورتی عمل پر سیاسی رہنمائوں کو اعتماد میں لیا ہے۔ انہوں نے مولانا فضل الرحمن، سراج الحق، حاصل بزنجو، آفتاب شیرپائو، ایم کیو ایم اور اے این پی کے رہنماؤں سے رابطہ کر کے انہیں اعتماد میں لیا۔ پرویز رشید نے ایم کیو ایم کے رہنمائوں بابر غوری اور حیدر عباس رضوی کو فون کیا اور انہیں وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کے درمیان ہونے والی مشاورت چیف الیکشن کمشنر کیلئے مجوزہ ناموں پر اعتماد میں لیا۔ ایم کیو ایم نے چیف الیکشن کمشنر کیلئے چار نام تجویز کئے ہیں۔ ان میں جسٹس (ر) ناصر اسلم زاہد، جسٹس (ر) تصدق جیلانی، جسٹس (ر) بھگوان داس اور جسٹس (ر) غوث محمد شامل ہیں۔ ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی پاکستان اور لندن کا مشترکہ اجلاس ہوا جس میں ایم کیو ایم نے چیف الیکشن کمشنر کیلئے چار ناموں پر اتفاق کیا۔ مجوزہ نام حکومتی اور اپوزیشن لیڈر کو بھیج دیئے گئے۔ پرویز رشید نے اے این پی کے رہنما حاجی عدیل کے ساتھ بھی رابطہ کیا اور چیف الیکشن کمشنر کی تقرری پر مشاورت کی۔ لاہور سے خصوصی نامہ نگار کے مطابق جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ نے کہا ہے کہ جماعت نے جسٹس (ر) ناصر اسلم زاہد کے نام پر اتفاق کیا ہے، دوسرے نام بھی محترم ہیں مگر فخر الدین جی ابراہیم والا تجربہ نہیں دہرانا چاہئے۔ دوسری جانب بلوچستان نیشنل پارٹی نے جسٹس (ر) تصدق جیلانی کی حمایت کر دی ہے۔ پرویز رشید نے ان سے رابطہ کر کے ناموں پر مشاورت کی تھی۔
اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی) پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ کوجسٹس (ر) ناصر اسلم زاہد کا نام باضابطہ طور پر چیف الیکشن کمشنر کیلئے دیدیا ہے اور اس بات عندیہ دیا ہے کہ انتخابات میں شفافیت ثابت ہو نے پر تحریک انصاف اسمبلیوں میں واپس آ جائیگی قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے کہا ہے کہ سیاسی جماعتوں سے مشاورت سے چیف الیکشن کمشنر کے نام پر اتفاق رائے پیدا کیا جائیگا، وزیراعظم انہیں دیگر سیاسی جماعتوں سے مشاورت کا اختیار دیں یا نہ دیں وہ تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لینے کی آئینی، قانونی، سیاسی اور اخلاقی ذمہ داری پوری کریں گے۔ دونوں رہنمائوں نے یہ بات چیف الیکشن کمشنر کے تقرری کے سلسلے پر مشاورت کیلئے ملاقات کے بعد صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہی۔ دونوں رہنمائوں کے درمیان ڈیڑھ گھنٹے تک ملاقات جاری رہی۔ خورشید شاہ نے کہاکہ لاڑکانہ میں تحریک انصاف کو جلسہ کرنے کا حق حاصل ہے، وہ سکھر اور نوابشاہ جہاں چاہیں جلسے کریں۔ انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف اہم اپوزیشن جماعت ہے پارلیمنٹ کا بھی حصہ ہیں کیونکہ انکے استعفے منظور نہیں ہوئے قائد حزب اختلاف کی حیثیت سے ان سے مشاورت کی، یہ اسلئے بھی ضروری تھی کہ ماضی میں انتخابات میں ہونیوالی دھاندلی کے بعد چیف الیکشن کمشنر مستعفی ہوگئے تھے۔ اس وقت چاروں ارکان اپنی عزت بچا کر گھر چلے جاتے، انہیں گھر جانا چاہئے کمشن کے ان چاروں ارکان کو چلے جانا چاہئے۔ جماعت اسلامی، قومی وطن پارٹی اور اپوزیشن کی دیگر جماعتوں سے بھی مشاورت کہ جا رہی ہے ۔ میں نے اپنی طرف سے جسٹس (ر) رانا بھگوان داس اور جسٹس(ر) طارق پرویز کا نام دیا ہے۔ تحریک انصاف کی تجاویز سے وزیراعظم کو آگاہ کروں گا، غیر متنازعہ چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کیلئے تمام جماعتوں میں اتفاق رائے پیدا کیا جائیگا۔ الیکشن کمشن کو متنازعہ نہیں ہونا چاہئے۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ شفاف انتخابات غیر جانبدار الیکشن کمشن کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتے۔ انتخابی اصلاحات کیلئے پارلیمانی کمیٹی کام کر رہی ہے۔ شاہ محمود قریشی نے الیکشن کمشن کی تشکیل نو کا مطالبہ کرتے ہوئے الیکشن کمشن کو 2013ء کے انتخابات کی طرح متنازعہ نہیں ہونا چاہئے۔ ایسے چیف الیکشن کمشنر اور ارکان کا تعین کیا جائے جس پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے۔ جسٹس (ر) ناصر اسلم زاہد کی ذہانت اور دیانت کے سب قائل ہیں۔ جمہوریت کے فروغ کے ساتھ شفاف انتخابات سے متعلق آزاد و خود مختار الیکشن کمشن ناگزیر ہے۔ متنازعہ چیف الیکشن کمشنر کی تقرری ہوئی تو سڑکوں پر اور ایوانوں میں اس اقدام کا مقابلہ کیا جائیگا۔ موجودہ الیکشن کمشن کی نگرانی میں نہ ہی بلدیاتی نہ ہی قومی انتخابات کو تسلیم کیا جائیگا۔ متنازعہ الیکشن کمشن کے خلاف جنگ لڑیں گے۔ ہم غیر جانبدار چیف الیکشن کمشنر مقرر کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو اس سے بڑی خدمت اور کیا ہوسکتی ہے۔ وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف کی نامزدگیوں پر اپنی رائے محفوظ رکھتے ہیں۔ انتخابی دھاندلی کیخلاف دھرنا دے رہے ہیں شفاف انتخابات کی بنیاد رکھنا چاہتے ہیں وزیر اعظم نے جوڈیشل کمشن کا اعلان کیا سینیٹر اسحاق ڈار نے ہم سے مذاکرات کئے۔ تحقیقات کیلئے 45 دنوں کا کہہ کر گئے تھے محمد اسحقٰ ڈار کی یہ سفارشات کہاں گئیں ’’ سامنے آتے بھی نہیں صاف چھتے بھی نہیں‘‘ بھاگ رہے ہیں اور بھاگتے بھی نہیں۔ وزیر اعظم کو مذاکرات کے معاملے پر سنجیدگی اختیار کرنا چاہئے۔ انتخابات شفاف ثابت ہو جاتے ہیں تو واپس اسمبلیوں میں آ جائیں گے اگر دھاندلی ثابت ہوتی ہے تو آئین کے آرٹیکل 48 کے تحت وزیر اعظم کو قومی اسمبلی توڑنا پڑیگی اور مڈٹرم انتخابات کا اعلان کرنا پڑیگا۔ سینیٹر اسحاق ڈار ہم سے بات کریں۔ کرپشن کے الزامات کے حوالے سے اگر سید خورشید شاہ کا دل دکھی ہوا ہے کیونکہ اس حوالے سے تاثر پھیلا ہوا تھا اب اگرچہ نیب کیس کے حوالے سے وضاحت ہو گئی ہے۔ وہ پارٹی میں بھی اس بات کو رکھیں گے ۔ بلاول بھٹو زرداری پیپلزپارٹی کے چیئرمین ہیں۔ لندن میں ان کا احتجاج جمہوری حق تھا وہاں جو واقعہ پیش آیا میں برملا اس کی مذمت کرتا ہوں پی ٹی آئی کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ آئی این پی کے مطابق خورشید شاہ اور تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے مستقبل میں ہونے والے عام انتخابات کی شفافیت کیلئے نئے الیکشن کمشن کی تشکیل اور ملکی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے دیانتدار چیف الیکشن کمشنر کی تقرری پر اتفاق کیا، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف نے نئے چیف الیکشن کمشنر کیلئے جسٹس (ر) بھگوان داس کے نام پر اتفاق کیا‘ تحریک انصاف نے جسٹس (ر) ناصر اسلم زاہد کو پہلی ترجیح قرار دیا۔ ملاقات میں پیپلز پارٹی کے رہنماء قمر زمان کائرہ بھی موجود تھے۔ تحریک انصاف نے جسٹس(ر) ناصر اسلم کا نام پیش کیا خورشید شاہ کی طرف سے جسٹس تصدق جیلانی اور جسٹس بھگوان داس کے نام پیش کئے گئے۔ پیپلز پارٹی نے جسٹس بھگوان داس اور تحریک انصاف نے جسٹس ناصر اسلم زاہد کو اپنی پہلی ترجیح قرار دیا تاہم دونوں جماعتوں کی طرف سے جسٹس بھگوان داس پر اتفاق کیا گیا۔