پاکستان کے کئی حصے آج بھی پسماندگی کا شکار پانی، خوراک، صحت کی سہولتیں ایک طرف بعض علاقوں میں جانے کیلئے راستہ تک نہیں
کراچی (بی بی سی) بہت سے ملکوں میں کئی علاقے ترقی کا شوروم کہلاتے ہیں اور کئی علاقے پسماندگی کا اشتہار بنا کے رکھے جاتے ہیں۔ جیسے نیویارک کا دل مین ہیٹن اور پھر اسی نیویارک کا زخم برونکس اور کم و بیش اسی انداز کے باقی امریکی شہر۔ جیسے لندن کا حسین محلہ مے فئیر اور پھر اسی لندن کا مدقوق اندرونِ ایسٹ اینڈ۔ اسی طرح پاکستان میں بھی ترقی کے شو روم اور پسماندگی کے نگار خانے شانہ بشانہ نظر آتے ہیں۔ جیسے اسلام آباد پاکستان کا سب سے بڑا شو روم ہے۔ دوسرا بڑا شوکیس لاہور ہے جس کے آس پاس پنجاب بھی پڑا ہوا ہے اور اسی پنجاب کے ایک کونے پر راولپنڈی جیسا منہ چڑا لاڈلا ہے اور دوسرے کھدرے پر راجن پور اور ہم نواو¿ں سمیت دور پرے کے غریب رشتہ دار بھی حالتِ برداشت میں ہیں۔ خیبر پی کے کے قبائلی تو اتنے عجیب ہیں کہ کوئی ان کے لیے کرے بھی تو کیا کرے۔ نہ ہاتھ پھیلاتے ہیں ، نہ مسلسل غل مچاتے ہیں، حتی کہ منہ سے سی کی آواز نکالنے تک کو ناگوار کام سمجھتے ہیں۔ بس پشتو، ہندکو، چترالی وغیرہ میں ہی آپس میں کچھ نہ کچھ کہتے سنتے رہتے ہیں جو کسی کے پلے نہیں پڑتی تو ترقی کی ریوڑیاں بانٹنے والے نابیناو¿ں کے کیا پلے پڑے گی؟ سندھ میں کہنے کو تو کراچی ترقی کا اور اندرونِ سندھ تنزلی کا استعارہ بتایا جاتا ہے لیکن اسی کراچی عرف منی پاکستان میں بہت سے چھوٹے چھوٹے پسماندہ پاکستان بھی پائے جاتے ہیں اور اندرونِ سندھ کی پسماندگی کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر کے درمیان بہت سے ایسے الف لیلائی اوطاق بھی پائے جاتے ہیں کہ ملکہِ برطانیہ بھی بکنگھم پیلس ان اوطاقوں سے بدلنے کو تیار ہوجائیں۔ یقین نہ آئے تو ضلع دادو ، عمرکوٹ اور تھر پارکر وغیرہ کے اندرون دیکھ لیجئے جہاں پینے کا صاف پانی ایک مقامی دیہاتی آج بھی ایسی نظروں سے دیکھتا ہے جیسے کوئی کھاتا پیتا مڈل کلاسیا رائل سلوٹ سکاچ وہسکی کی بوتل تاڑے۔ بلوچستان تو اتنا خالی ہے کہ تاحدِ نگاہ مسئلہ تک نظر نہیں آتا۔ ویسے بھی ان علاقوں کے بارے میں کیا لکھنا جن کے موازنے میں تھرپارکر بھی ہانگ کانگ محسوس ہو۔ کم ازکم تھرپارکر تک کوئی ایسی سڑک تو جاتی ہے جس پر کسی ٹی وی چینل کی ڈی ایس این جی چل کے شام تک کراچی لوٹ سکے۔ دشت، آواران، خاران، چاغی وغیرہ وغیرہ کے اندرون تو ایسے لق و دق اور سناٹے دار ہیں کہ ترقی ان بیابانی راستوں میں ہی تڑپ تڑپ کے مرجاتی ہے۔
راستہ تک نہیں