مجید نظامی کیلئے خراج عقیدت
کچھ برس پہلے مجاہد صحافت مرشد و محبوب ڈاکٹر مجید نظامی کے ساتھ ایک شام منائی گئی۔ یہ تقریب پذیرائی اسلام آباد میں ہوئی تھی۔ برادرم نعیم قاسم نے یہ اہتمام کیا تھا۔ بہت بھرپور پروگرام تھا۔ ایک شائستہ اور کشادہ سنجیدگی کے ساتھ نظامی صاحب سٹیج پر بیٹھے تھے۔ ایک آسودہ نرمی اور سوزوگداز سے بھری ہوئی لطافت ان کے چہرے پر نمایاں تھی۔ ایک انوکھی چمک ان کی آنکھوں میں تھی۔ پھر ہم سب صوفی دانشور اہل دل انسان نسیم انور بیگ کے پاس چلے گئے۔ لاہور سے برادرم شاہد رشید اور میں خاص طور پر اس زندہ محفل میں گئے تھے۔
اب ایک محفل ان کی یاد سے آباد کی جا رہی تھی۔ جنرل عبدالقیوم نے تقریب کا اہتمام کیا تھا۔ عائشہ مسعود نے اس محفل کے لئے نمایاں کردار ادا کیا۔ تقریب میں اسلام آباد کے سب اہم لوگ موجود تھے۔ اتنے بڑے لوگ شاید اسلام آباد کی کسی محفل میں کبھی نہ گئے ہوں گے۔ مرشد و محبوب مجید نظامی جنرل قیوم کے ساتھ ایک خاص دوستی رکھتے تھے۔ انہوں نے خاص طور پر خاص لوگوں کو اس محفل میں شرکت کی دعوت دی۔ تقریب میں ریٹائرڈ پرنسپل بہت زیادہ تھے۔ جنرل عبدالقادر بلوچ وزیر بھی ہیں مگر انہیں اور جنرل قیوم کو اپنے جرنیل ہونے پر فخر ہے۔ جنرل قیوم اہم دفاعی تجزیہ کار اور کالم نگار بھی ہیں۔ ایک مقرر نے مجید نظامی کو جنرل نظامی کہہ دیا۔ نظامی صاحب نظریاتی سپاہ کے جرنیل تھے۔ عائشہ مسعود نے ایک زندہ کتاب نظامی صاحب کے لئے لکھی ہے۔ اس کے لئے عائشہ کو کئی بار لاہور آنا پڑا۔ مجید صاحب کے احباب میں بڑے لوگ تھے مگر یہ اعزاز عائشہ کے نصیب میں لکھا تھا۔ اس حوالے سے جسٹس (ر) آفتاب فرخ نے بھی عائشہ کا حوصلہ بڑھایا۔ وہ عائشہ کے بہت بڑے مداح ہیں۔ کتاب کے نام ”جب تک میں زندہ ہوں“ کی مناسبت سے عائشہ نے کہا کہ اب میں سمجھتی ہوں کہ وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ زندہ تر رہیں گے۔ اسلام آباد میں مجید نظامی (مرحوم) کے لئے زندہ تقریب میں جسٹس آفتاب فرخ برادرم شاہد رشید اور میں لاہور سے پہنچے تھے۔ جسٹس آفتاب فرخ کی گفتگو نظامی صاحب کے ساتھ ان کی رفاقتوں کا ایک گلدستہ تھی۔ جس کی خوشبو محفل میں دیر تک بکھرتی رہی۔ برادرم نعیم قاسم بھی محفل میں موجود تھے۔ وہ راولپنڈی نظریہ پاکستان فورم کے صدر ہیں۔ عائشہ نے بتایا کہ وہ پنڈی میں بھی ایک زبردست تعزیتی ریفرنس کا اہتمام کر رہے ہیں۔ جنرل قیوم اسلام آباد نظریہ پاکستان فورم کے صدر ہیں۔ انہوں نے اسلام آباد کے حوالے سے ایک نمائندہ تقریب منعقد کی۔ قائد ایوان سینٹ راجہ ظفرالحق نے صدارت کی۔ لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ سنیٹر طارق عظیم ایم پی اے مہوش سلطانہ سابق صدر آزاد کشمیر سردار محمد انور ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر ثمر مبارک مند، جسٹس (ر) میاں آفتاب فرخ، ایڈیٹر روزنامہ پاکستان اسلام آباد سردار خان نیازی، سینئر صحافی اور ایڈیٹر زاہد ملک، اہم شخصیت اور کالم نگار ظفر بختاوری نظریہ پاکستان ٹرسٹ لاہور کے سیکرٹری جنرل شاہد رشید، عارف شیخ، پروفیسر احسان اکبر نے گفتگو کی۔ ظفر بختاوری نظامی صاحب کے ساتھ گہرا تعلق رکھتے تھے۔ وہ اہم ملکوں کے سفیروں کے لئے بھی تقریبات منعقد کرتے رہتے ہیں۔ وہ فورم کے سیکرٹری ہیں۔ محترمہ صبا نے نظامی کی۔ میں نے بھی مرشد و محبوب ڈاکٹر مجید نظامی کے لئے عقیدت کے پھول پیش کئے۔ محفل میں سینئر صحافی اور تجزیہ کار خوشنود علی خان بھی موجود تھے۔
ایک مشن کے طور پر جو بامقصد صحافت تھی، اس کے آخری چراغ مجید نظامی تھے۔ یہ روشنی ان کے بعد بھی نوائے وقت، دی نیشن اور نظریہ پاکستان ٹرسٹ کی اشاعت و فروغ میں بکھرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ آج کل صحافت کمرشل ازم کی ریٹنگ میں رینگتی نظر آتی ہے۔ نوائے وقت پاکستان کا واحد نمائندہ اخبار ہے۔ پاکستان نوائے وقت کی وساطت سے بولتا ہے۔ بلوچستان کے دور دراز پہاڑوں میں گھری ہوئی بستی میں سردار اکبر بگٹی مرحوم ہمیشہ نوائے وقت کا انتظار کرتے۔ وہ کہتے کہ یہ جاننے کے لئے نوائے وقت پڑھتا ہوں کہ پاکستان کی سوچ کیا ہے۔ پاکستان کی آواز کیا ہے۔ نظامی صاحب بھارت کو دشمن سمجھتے تھے۔ بھارت والے نوائے وقت کو پاکستان کا ترجمان سمجھتے ہیں۔ دنیا والے بھی پاکستان کے حالات و معاملات سے آگہی کے لئے نوائے وقت پڑھتے ہیں۔
بڑے میاں صاحب میاں محمد شریف اپنے دونوں بیٹوں نواز شریف اور شہباز شریف کے ساتھ مجید نظامی صاحب کے پاس حاضر ہوئے اور پاکستان کی صدارت کی پیشکش کی۔ نظامی صاحب نے بادشاہی اور درویشی کے امتزاج سے بنی ہوئی بے نیازی سے فرمایا میرے لئے نوائے وقت کی ادارت کی کرسی پاکستان کی صدارت کی کرسی سے بڑی ہے۔ میں اگر صدر بن گیا تو نواز شریف چند دن بھی وزیراعظم نہیں رہ سکیں گے۔ کوہسار صفت نظامی صاحب کبھی کمپرومائز نہ کرنے والے مجید نظامی نے نوائے کو وہ عزت اور عظمت بخشی کہ یہ قسمت کسی کو نصیب نہ ہوئی۔ نوائے وقت کی پیشانی پر ایک نورانی حقیقت کے طور پر یہ حدیث رسول لکھی ہوئی ہے ”جابر سلطان کے سامنے کلمہ¿ حق بلند کرنا افضل جہاد ہے۔“ تمام عمر انہوں نے اس اعزاز کی حفاظت کی۔ جب وہ اے پی این ایس کے صدر تھے صدر جنرل ضیاالحق صدارت کر رہے تھے۔ نظامی صاحب نے جابر سلطان کی تکرار کے ساتھ جرات مندی کی انتہا کر دی۔ لوگ منتظر تھے کہ اب جنرل ضیاءکیا جواب دیں گے۔ انہوں نے آخر میں کہا کہ نظامی صاحب نے ہر جابر سلطان کو صابر سلطان بنا دیا۔ وہ اس کے سوا کچھ نہ کر سکا۔
حیرت ہے کہ اتنی کھلی تنقید اور انتہائی جرات مندی کی ایک طویل تاریخ لکھنے والے کو کوئی جابر سلطان ایک دن قید نہ کر سکا۔ اس حوالے سے قائداعظم یاد آتے ہیں۔ مجید نظامی قائداعظم سے بے پناہ عقیدت اور وابستگی رکھتے تھے۔ سب سے پہلے انہوں نے قائداعظم کے پاکستان کی اصطلاح استعمال کی۔ اب ہر کوئی قائداعظم کے پاکستان کی بات کرتا ہے۔ حتیٰ کہ عمران خان نے ”نیا پاکستان پر گہری تنقید کے بعد قائداعظم کے پاکستان کی بات کرنا شروع کر دی ہے۔ مجید نظامی نے صدر جنرل ایوب کے خلاف محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت کا جھنڈا بلند کیا اور خود بھی سربلند ہو گئے۔ انہوں نے ہی محترمہ فاطمہ جناح کو مادر ملت کا خطاب دیا جو سارے پاکستان میں نظریاتی خوشبو کی طرح جگمگاتا چلا گیا۔ اب لوگ ان کا نام نہیں جانتے اور انہیں مادر ملت کہہ کر پکارتے ہیں۔
میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ قائداعظم نے انگریزوں اور ہندوﺅں کے خلاف معرکہ آرائی میں کمال کر دیا مگر وہ ایک دن بھی جیل نہ گئے جبکہ تحریک آزادی اور تحریک پاکستان کے تقریب کے سب اہم رہنما قیدوبند کی مشکلوں سے گزرے۔ اس لحاظ سے مجید نظامی قائداعظم کے سپاہی تھے اور مسلسل میدان میں رہے مگر اپنی اصول پسندی حق گوئی اور بے مثال جرات مندی کی پاکیزگی ان کی شخصیت میں تھی کہ ان کے لئے ایک دن کی قید کی سزا بھی کسی جابر سلطان کی جرات میں نہ لکھی تھی۔