• news

انتخابی دھاندلی کی تحقیقات : جوڈیشل کمشن میں آئی ایس آئی‘ ایم آئی کی شمولیت کا مطالبہ غیر آئینی ہے : حکومت

اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی +ایجنسیاں+ نیٹ نیوز) وفاقی حکومت نے کہا ہے کہ جوڈیشل کمشن میں عدلیہ کے ججز ہوتے ہیں ایجنسیوں کے اہلکار نہیں ہوتے، خفیہ اداروں کے ارکان کی کمشن میں تقرری پر بات نہیں ہو سکتی، عمران کا مطالبہ غیرآئینی اور غیرقانونی ہے، شاید وہ کوئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنوانا چاہتے ہیں، آئین اور قانون میں رہتے ہوئے تحریک انصاف کی بات مانیں گے۔ سپریم کورٹ کو انکوائری ایکٹ 1956 کے تحت عدالتی کمشن کی تشکیل کے لئے خط لکھ دیا تھا ، سپریم کورٹ آج ججوں کے نام دےدے ہم نوٹیفکیشن جاری کر دیں گے، مذاکرات کے دروازے عمران خان نے خود بند کئے، پاکستان میں نہ تو جنگل کا قانون ہے اور نہ ہی بادشاہت جو چاہے اپنی مرضی کرے، آئین سے ہٹ کر کوئی عدالتی کمشن نہیں بنایا جا سکتا۔ خورشید شاہ نے چیف الیکشن کمشنر کے لئے تین نام بجھوا دیئے ہیں، کوشش ہو گی کہ ٹائم لائن کے اندر اس عمل کو مکمل کریں۔ ان خیالات کا اظہار وزیر خزانہ اسحاق ڈار، وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر پرویز رشید اور وزیر سائنس و ٹیکنالوجی زاہد حامد نے مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب میں کیا۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ انتخابات کے عدالتی کمشن میں آئی ایس آئی اور ایم آئی کے نمائندوں کو شامل کرنے کے حوالے سے عمران خان نے بیان دے کر سب کو حیران کر دیا ہے۔ یا تو انہیں غلط فہمی ہوئی ہے یا انہوں نے قانون نہیں پڑھا۔ تحقیقاتی کمشن قائم کرنے کے حوالے سے 13 اگست کو ہی حکومت نے سپریم کورٹ کو خط لکھ دیا تھا۔ کیونکہ آئینی طور پر عدالت براہ راست انتخابی معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتی۔ ہم تحریک انصاف کے مطالبات پہلے ہی مان چکے ہیں مزید بات چیت کے لئے بھی تیار ہیں۔ تحریک انصاف کے دو حصوں میں مطالبات تھے پہلا حصہ انتخابی تحقیقات کے حوالے سے تھا جو مانا جا چکا ہے جبکہ دوسرا حصہ مستقبل میں انتخابی اصلاحات کے حوالے سے تھا جس پر انتخابی اصلاحاتی کمیٹی کام کر رہی ہے۔ ہم سپریم کورٹ کو نہیں کہہ سکتے کہ یہ عدالتی کمشن کن ججوں پر مشتمل ہو، ہم نے تحریک انصاف کی مذاکراتی کمیٹی سے پندرہ ملاقاتیں کیں اور ان سے جو وعدے کئے وہ تحریک انصاف کے علاوہ تمام پارلیمانی جماعتوں کی مشاورت سے کئے ۔ اکثر لوگ کنفیوز ہیں کہ عمران خان واقعہ ہی ایم آئی اور آئی ایس آئی کو تحقیقاتی کمیشن میں شامل کرنا چاہتے ہیں ۔ مذاکرات کے دروازے ہم نے نہیں بلکہ عمران خان نے خود بند کئے۔ آئین کے دائرے میں بات چیت کیلئے ہروقت تیار ہیں۔ اب بات چیت کس چیز کی جب تمام باتیں پہلے ہی طے ہو چکی ہیں، قانون میں بتایا گیا ہے کہ انتخابی شکایات کے حوالے سے کہاں سے ریلیف لینا ہے اور عمران خان نے خود اس کو استعمال بھی کیا ہے۔ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو ہم ڈکٹیٹ نہیں کر سکتے۔ تحریک انصاف مخصوص حلقوں میں تحقیقات کرانا چاہتی تھی اور چاہتی تھی کہ اسی کی بنیاد پر طے کیا جائے کہ دھاندلی ہوئی ہے یا نہیں لیکن میں نے واضح طور پر کہا کہ کم از کم 50 فیصد حلقوں کی تحقیقات کرنا ہوں گی جبکہ مستقبل کے انتخابی اصلاحات کے حوالے وزیراعظم نے 10 جون کو سپیکر کو خط لکھ دیا تھا اور ہم نے پارلیمانی کمیٹی میں اپنا کوٹہ چھوڑ کر چھوٹی جماعتوں کو حصہ دیا ۔ ہمیں اب تک 1283 تجاویز مل چکی ہیں۔ انہوں نے کہا اگر پی ٹی آئی کی کوئی مثبت تجویز ہو تو ہم اسے سننے کو تیار ہیں لیکن یہ آئین اور قانون کے دائرے میں ہونی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ دھرنوں نے ملک کی معیشت کو بے پناہ نقصان پہنچایا ہے۔ بیرونی سرمایہ کاروں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچی ہے پاکستان مضبوط ہے اور ہر آنے والے دن کے ساتھ مزید مضبوط ہو گا۔ ہم اپنے معاشی اہداف کے مطابق 31 دسمبر 2014ءتک کے اہداف حاصل کریں گے۔ ملکی معیشت کو بے انتہا نقصان پہنچایا گیا تاہم اب دوبارہ دنیا کا اعتماد بحال ہو رہا ہے۔ میں عمران خان کے طرز گفتگو پر تبصرہ نہیں کرنا چاہتا۔ میں نے مذاکرات کے دوران شاہ محمود قریشی کو پیش کش کی تھی کہ وہ پارلیمانی انتخابی اصلاحاتی کمیٹی کے چیئرمین بن جائیں تاکہ کام کو تیزی سے نمٹایا جا سکے۔ انہوں نے مجھے جواب دیا کہ خدا کے لئے یہ بات آپ اپنے تک محدود رکھیں اگر آپ کمیٹی کے چیئرمین رہیں گے تو یہ کام مکمل ہو سکتا ہے۔ ہمیں عدلیہ کی عزت اور احترام کرنا چاہئے اور تمام اداروں کو مضبوط بنانا چاہئے۔ یہ کہنا اچھی بات نہیں کہ عدلیہ بحال تو ہو گئی ہے آزاد نہیں۔ ہمیں آئین اور قانون کے تحت چلنا چاہئے ہم روز نیا تماشا لگاتے ہیں اور دنیا کو دکھاتے ہیں کہ ہم سنجیدہ نہیں ہیں۔ تحریک انصاف تحقیقات کے حوالے سے اپنا سکوپ آف ورک بنانا چاہتی تھی پرسوں مجھے تحریک انصاف کی طرف سے مذاکرات کا پیغام ملا تھا ہم بات چیت کے لئے تیار ہیں ۔ ایک سوال پر سینیٹر پرویز رشید نے کہا کہ 17 مہینے سے تحریک انصاف الزامات لگا رہی ہے لیکن ایک بھی ثبوت پیش نہیں کر سکی۔ ایک پٹیشن میں سپریم کورٹ میں گئی تھی لیکن سپریم کورٹ نے کہا ہم بغیر ثبوت کے اسے نہیں سن سکتے۔ عمران خان خود ہی چیف جسٹس، چیف آف آرمی سٹاف اور چیف الیکشن کمشنر بننا چاہتے ہیں۔ اگر میں سپیکر ہوتا تو پہلے ہی دن تحریک انصاف کے استعفے قبول کر لیتا۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ تحریک انصاف کے استعفوں کے حوالے سے سپیکر کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کی تصدیق کریں۔ کچھ ماہ پہلے عمران خان نے عدلیہ پر بھرپور اعتماد کا اظہار کیا لیکن انہی پر ہی تنقید کر رہے ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ 30 نومبر کو ہم جو کچھ بھی کریں پُرامن کریں پاکستان کے معاشی مفاد کو نقصان نہیں پہنچنا چاہئے۔ وزیراطلاعات پرویز رشید نے کہا ہے کہ نیا پاکستان بن چکا ہے، اب لوگ اپنے مینڈیٹ کا تحفظ کرنا جانتے ہیں۔ عمران خان خیبر پی کے میں ناکامیوں کا اعتراف کیوں نہیں کرتے، اربوں کی سرمایہ کاری کی مخالفت سے ثابت ہوا کہ کون رکاوٹ ڈالنا چاہتا ہے۔ چین جیسے ملک کا اعتماد حکومت کی شفافیت کی دلیل ہے، کامیاب دورہ چین سے عمران خان کے مقاصد خاک میں مل گئے۔ عمران دوسروں پر کیچڑ اچھالنا بند کریں اور شیشے کے گھر میں بیٹھ کر دوسروں پر پتھر نہ پھینکیں۔ وزیراعظم ہاﺅس کے بجلی کے بل کی بات کو عجیب قرار دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم اکیلے نہیں رہتے، سینکڑوں دفاتر بھی ہیں، چیلنج کرتا ہوں کہ عمران خان اپنا ب فارم صحیح پُر نہیں کر سکتے۔
حکومت














ای پیپر-دی نیشن