آرٹیکل 62/63 پر جامع فیصلہ ضروری ہے‘ سپریم کورٹ : وزیراعظم نااہلی کیس چیف جسٹس کو ریفر
کوئٹہ (آئی این پی+ ثناءنیوز+ نوائے وقت نیوز) سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے وزیراعظم کی نااہلی سے متعلق درخواست چیف جسٹس ناصر الملک کو مزید احکامات کے لئے ریفر کرتے ہوئے ایسی دیگر درخواستوں کو یکجا کرکے سماعت کیلئے لارجر بنچ تشکیل دینے کی سفارش کردی ہے۔ عدالت نے سینئر وکلاءاور آئینی ماہرین رضا ربانی‘ حامد خان اور خواجہ حارث کو عدالت کا معاون مقرر کرنے کی تجویز دی۔ وزیراعظم نااہلی کیس میں عدالت نے فیصلہ سنا دیا ہے۔ فاضل عدالت نے کہا ہے کہ عوامی نمائندوں کے انتخاب کے لئے 62/63 پر جامع فیصلہ آنا ضروری ہے۔ یہ مقدمہ امتحانی پرچہ ہے، اس میں آئینی سوالات اٹھے ہیں جن پر فیصلہ دینا ضروری ہوگیا ہے‘ کسی کو بھی اس کیس میں بلا سکتے ہیں‘ آرٹیکل 62 اور 63کا جائزہ لینا ہوگا ورنہ یہ بے معنی ہو جائےگا‘ جاننا ہوگا کہ صادق اور امین کا فیصلہ کون کرےگا؟۔ قائم مقام چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بنچ نے کوئٹہ رجسٹری میں وزیراعظم نواز شریف کی نااہلی سے متعلق گوہر نواز سندھو و دیگر کی آئینی درخواستوں کی سماعت کی۔ اٹارنی جنرل اور درخواست گزار گوہر نواز سندھو عدالت میں پیش ہوئے۔ جسٹس جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا اس مقدمہ میں آئینی سوالات اٹھے ہیں جن پر فیصلہ دینا ضروری ہوگیا ہے۔ تین رکنی بنچ نے سینئر وکلاءاور آئینی ماہرین رضا ربانی‘ حامد خان اور خواجہ حارث کو عدالت کا معاون مقرر کرتے ہوئے کیس مزید احکامات کے لئے چیف جسٹس کو پیش کرنے کا حکم دیا اور سفارش کی کہ ایسے دیگر مقدمات یکجا کرکے لارجر بنچ تشکیل دیا جائے تاکہ الگ الگ فیصلوں سے ابہام پیدا ہونے کی گنجائش نہ ہو۔ دوران سماعت جسٹس سرمد جلال عثمانی نے کہا کہ جاننا ہو گا کہ صادق اور امین کافیصلہ کون کرےگا؟ تین رکنی بینچ نے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی نااہلی کیس کی مزید سماعت کا اختیار چیف جسٹس سپریم کورٹ ناصر الملک پر چھوڑ دیا ۔ بینچ نے مختصر حکم میں لکھا ہے کہ 1170 کے قریب قومی اسمبلی، سینٹ اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر ارکان حصہ لیتے ہیں لہذا 62 اور 63 کی تشریج ہونا ضروری ہے تاکہ آئندہ اس بات کا فیصلہ ہو سکے کہ قومی اسمبلی، صوبائی اور بلدیاتی انتخابات میں کون حصہ لے سکتا ہے۔ اس بات کا فیصلہ کرنا ضروری ہے کہ وزیر اعظم نے اپنے بیان سے فوج کو بدنام کیا یا نہیں اور وہ آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 پر پورا اترتے ہیں یا نہیں۔ سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ نے کہاکہ لاہور ہائی کورٹ نے درخواست سیاسی مسئلہ قرار دیتے ہوئے خارج کر دیا تھا اس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ یہ بنیادی مسئلہ ہے ہمیں آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت دیکھنا ہو گا ۔ اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کیس میں آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کی تمام شقوں کا بغور مطالعہ کر کے فیصلہ دیا گیا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ اس سے تو بڑا پنڈورا بکس کھل گیا یا کھل جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ تو بڑا پنڈورا باکس ہے جو کھلے گا مشکل عدالتوں کے لئے ہے عدالت سیاسی سوال کہہ کر جان نہیں چھڑا سکتی۔ ترمیم کرنے والی 26 رکنی کمیٹی نے حلف دیا ہے کہ وہ باہر جا کر کوئی بات نہیں کرے گی۔ عوامی نمائندوں کے انتخاب کے حوالہ سے آرٹیکل 62 اور 63 سے متعلق جامع فیصلہ آنا ضروری ہے۔ ہم کیس کو نہیں چھوڑ سکتے۔ بنیادی نوعیت کے سوالات کا جواب دینا ہو گا ضرورت محسوس ہوئی تو ہم کسی کو بھی بلا سکتے ہیں ہماری طرف سے کوئی آئے یا جائے ہمیں آئینی صورت حال کو دیکھنا ہو گا۔ جسٹس جواد نے کہا کہ اگر ہائی کورٹ کو یہ اختیار نہیں تو پھر عام آدمی کہاں جائے۔ لاہور ہائی کورٹ نے درخواست کو مسترد کیا ہم اس سے اتفاق نہیں کرتے درخواست میں بہت اہم سوالات اٹھائے گئے ہیں ان کا فیصلہ کرنا ہو گا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ وزیر اعظم کے بیان سے پاک فوج اور دیگر اداروں کی توہین ہوئی، نہ ہی لاہور ہائی کورٹ اس قسم کے مقدمہ کی سماعت کا اختیار رکھتی ہے ۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ اگر لاہور ہائی کورٹ ایسی درخواستوں کو سننے کا اختیار نہیں رکھتی تو پھر لوگ کہاں جائیں گے ۔ عدالت نے قرار دیا کہ اس کیس میں اہم سوالات اٹھائے گئے ہیں پر جواب آنا ضروری ہے۔ جسٹس جواد نے تجویز دی کہ ابہام دور کرنے کے لئے فیصلہ اردو میں کیا جائیگا۔ درخواستوں کی سماعت ایک ہی بنچ کرے تاکہ متضاد فیصلوں سے بچا جا سکے۔ بلدیاتی الیکشن میں 62/63 کے لئے فیصلے بہت اہم ہونگے۔ وزیراعظم کو کونسے استحقاق حاصل ہونگے اس کے بارے میں بھی فیصلہ کریں گے۔