تھر میں مزید 4 بچوں سمیت 6 افراد جاں بحق، ہلاکتیں 410 ہوچکی ہیں: محکمہ صحت
تھرپارکر (این این آئی+ آئی این پی) تھر میں غذائی قلت کے باعث اموات کا سلسلہ جاری ہے۔ منگل کو بھی تھر کے مختلف علاقوں میں4 بچوں سمیت 6افراد مزید توڑ گئے جس کے نتیجے میں 42 روز کے دوران جاں بحق بچوں کی تعداد 65 ہوگئی ہے۔ این این آئی کے مطابق ورنائی گائوں میں مزید دو مائوں کی گودیں اجڑ گئی اور دو نومولود بچے زندگی کے آغاز پر ہی دم توڑ گئے۔ ڈیپلو کے نواحی گائوں کرشن کولھی میں بھی سات ماہ کا ایک بچہ خوراک کی کمی کا شکار ہو گیا ، کھینسر گائوں میں زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا جیاں بی بی اور اس کا شوہر بھی جان کی بازی ہار گئے۔ ضلعی محکمہ صحت کی رپورٹ کے مطابق یکم جنوری سے 31 اکتوبر تک ضلع تھرپارکر میں غذائی قلت کے شکار 410 بچے سرکاری ہسپتالوں میں ہلاک ہوئے جبکہ سول ہسپتال مٹھی میں 10ماہ کے دوران 318 بچے، تحصیل ہسپتال ڈیپلو میں 17، چھاچھرو میں 51، تحصیل ہسپتال ننگر پارکر میں 19 اور بنیادی مرکز صحت اسلام کوٹ میں 5 بچے موت کی وادی میں جا پہنچے۔ نوائے وقت رپورٹ کے مطابق مٹھی کے ہسپتال میں غذائی قلت سے ایک اور نومولود جاں بحق ہو گیا۔ آئی این پی کے مطابق مٹھی کے سول ہسپتال میں زیر علاج 2 بچوں کو تشویش ناک حالت میں حیدرآباد منتقل کردیا گیا۔ اے پی اے کے مطابق سیکرٹری صحت سندھ اقبال درانی نے تھر کی صورتحال کے حوالے سے میڈیا کو بتایا تھر میں زیادہ ہلاکتیں نومولود بچوں کی ہوئیں ہیں جس کی بڑی وجہ وہاں کی زچہ اور بچہ کی کمزور قوت مدافعت ہے۔ این این آئی کے مطابق وزیر اطلاعات و بلدیات سندھ شرجیل انعام میمن نے کہا سندھ حکومت اپنے وسائل سے بھی زیادہ بڑھ کر تھرپارکر کو ترقی دینے اور وہاں کے معاشی حالات کو بہتر بنانے کے لئے کوشاں ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ اور سندھ حکومت پر تنقید کرنے والے 20 سال سے محکمہ صحت اپنے پاس رکھ کر بیٹھے تھے اور تھرپاکر کے وزیر اعلیٰ بھی تھے تو انہوں نے کیوں تھرپارکر کی ترقی کے لئے اقدامات کیوں نہیں کئے۔ پاکستان ایک ترقی یافتہ ملک ہے لیکن یہاں سالانہ 2 لاکھ بچوں کی اموات تشویش ناک ہیں، اس کے لئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں، سیاسی جماعتوں اور این جی اوز کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔