ذلت کا لباس
میرے جلال کی قسم جو میرے غیر سے امید رکھے میں اسے ذلت کا لباس پہناﺅں گا
بعض کتب الٰہیہ میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میری عزت و جلال کی قسم میں اس شخص کی امید قطع کر دوں گا جو میرے غیر سے امید رکھے اور میں ان لوگوں کو ذلت کا لباس پہناﺅں گا اور اپنے قرب و وصل سے دور کر دوں گا اور اس کو متفکر اور حیران و پریشان کر دوں گا جو مذکورہ بالا مواقع میں میرے علاوہ سے امیدیں رکھتا ہے، حالانکہ مصائب میرے قبضہ میں ہیں، اور میں ہی حی قیوم ہوں، میرے علاوہ کے دروازے کھٹ کھٹانے والو؟ تمام دروازوں کی کنجیاں میرے ہاتھ میں ہیں۔ میرے سارے دروازے کھلے ہوئے ہیں، اس لئے جو مجھے ہی پکارے تو میں اس کی فریاد رسی کے لئے ہر وقت حاضر و موجود ہوتا ہوں۔
ایک عورت ستر ہزار کی شفاعت کرے گی
زمانہ کی ولیہ اور گھر میں فاقہ۔ منقول ہے جس رات امت کی عظیم عارفہ حضرت رابعہ بصری کی ولات ہوئی تو والدین کے گھر میں غربت کی وجہ سے چراغ جلانے کے لئے روغن (تیل) بھی نہیں تھا۔ آپ کی والدہ صاحبہ نے والد صاحب سے عرض کیا کہ فلاں ہمسایہ (پڑوسی) کے ہاں جا کر تھوڑا سا تیل لے آﺅ تاکہ گھر میں چراغ جلا سکیں، مگر نومولود رابعہ کے والد ماجد نے خفیہ طور پر اپنے دل میں یہ عہد کر لیا تھا کہ مجھے کسی قسم کی بھی ضرورت پیش آئے تو میں اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی سے کبھی مطالبہ نہیں کروں گا۔ اب گھر میں چراغ کے لئے تیل لانے کے لئے کہا گیا اور حقیقت میں اس کی ضرورت بھی تھی۔ گھر والی کی دل جوئی کے لئے گھر سے باہر آئے اور ہمسایہ کے دروازہ پر اپنا ہاتھ رکھ کر واپس چلے آئے اور اہلیہ محترمہ سے کہا میں گیا تو تھا مگر ہمسایہ نے دروازہ نہیں کھولا اور کسی جگہ سے ملنے کی امید بھی نہ تھی۔ والد ماجد رنج کی حالت میں اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگ کر سو گئے۔ خواب میں رحمت اللعالمین کی زیارت نصیب ہوئی۔
حضور نبی کریم نے فرمایا غمگین نہ ہوں، تمہاری بیٹی سیدہ ہے۔ میری امت کے ستر ہزار افراد اس کی شفاعت میں ہوں گے پھر ارشاد فرمایا امیر بصرہ (حاکم وقت) عیسیٰ زروان کے پاس جاﺅ اور یہ واقعہ کاغذ پر لکھ کر ان تک پہنچا دو۔ وہ یہ کہ تم ہر رات مجھ پر سو مرتبہ درود پڑھ کر بھیجتے تھے اور شب جمعہ میں چار سو مرتبہ درود پڑھتے تھے مگر گزشتہ جمعرات کو تمہیں کیا ہو گیا کہ درود شریف نہیں پڑھا گیا۔ اس کے بدلہ میں چار سو دینار (سونے کے سکے) بطور کفارہ اس کاغذ کو لے کر آنے والے کو دے دو بس اتنا خواب دیکھ کر خوشی میں روتے ہوئے بیدار ہو گئے اور مذکورہ واقعہ مرقوم کرکے دربان کے ہاتھ امیر حاکم بصرہ تک پہنچا دیا۔ امیر نے جب وہ کاغذ پڑھا تو خوشی میں دس ہزار درہم درویشوں میں تقسیم کرنے کا حکم دے دیا۔ اس بات کے شکرانے میں کہ حضور نبی کریم نے مجھے یاد فرمایا اور حکم دیا کہ چار سو دینار حضرت رابعہ کے والد ماجد کو دے دئیے جائیں اور یہ کہ وہ میرے پاس آئیں تاکہ میں اس کو دیکھ لوں۔ پھر خیال آیا کہ یہ بات اچھی نہیں کہ حضور کے پیغامبر (پیغام بھیجنے والے) کو میں اپنے پاس بلواﺅں۔ یہ ادب کے خلاف ہے بلکہ میں خود ان کے پاس جاﺅں گا اور اپنی داڑھی سے اس کے در کی خاک روبی کروں گا۔ اس کے بعد ان سے فرمایا کہ خدا کی قسم جب کبھی آپ کی ضرورت ہو تو مجھ سے فرما دیا کریں۔ والد ماجد نے وہ چار سو دینار لئے اور اپنی ضروری اشیا خرید لیں۔
فائدہ: عارفہ رابعہ کی بزرگی اور ولایت تو اپنی جگہ مسلمہ ہے مگر یہ واقعہ نقل کرنے کا مقصد یہ ہے کہ حضرت سیدہ کے والد ماجد کے کمال تقویٰ تو ذرا دیکھو کہ باوجود غربت، فقر و تنگدستی کے اپنے پالنہار کے ساتھ کیسا مومنانہ عہد و پیماں کئے ہوئے تھے کہ کیسے ہی جان لیوا، صبر آزما مشکلات درپیش ہوں مگر سوائے اس مالک حقیقی کے کسی کے سامنے دست سوال دراز نہیں کروں گا۔ چنانچہ اس پر وہ قائم رہے اور اس مقدس طرز عمل پر اس کریم داتا نے دیا، چھپڑ پھاڑ کر دیا ،یہاں تک کہ زمانے کے شاہوں کو ان کے در کا گدا بنا دیا۔ یہ سب ان کو صرف ایک احکم الحاکمین سے ملنے اور لینے کے پختہ عزم و ارادہ سے ملا۔ اس لئے جملہ مسلمانوں کو اس قسم کے واقعات سے نصیحت حاصل کرتے ہوئے اپنی زندگی کو اس طرح بنانے کی سعی کرتے رہنا چاہئے۔