کرزئی کے برعکس اشرف غنی کا دورہ پاکستان قیام امن کیلئے حقیقی کوشش
لاہور (محمد دلاور چودھری) پاکستان اور افغانستان کے درمیان ماضی کی تلخیاں بھلا کر تعلقات کے نئے دور کے آغاز کا عزم دونوں ملکوں کے ساتھ خطے کیلئے بھی یقیناً بہت بڑی خوشخبری ہے۔ امریکی فوج کے انخلا کی تاریخ قریب آنے اور افغانستان میں قیادت کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ افغان قیادت کی سوچ میں بھی نمایاں تبدیلی دیکھنے کو آ رہی ہے۔ نئے افغان صدر اشرف غنی ماضی کے صدر کرزئی کی طرح محض امریکی کٹھ پتلی بننے کی بجائے خطے کے ملکوں کو یہ احساس دلانے کی جدوجہد میں ہیں کہ ان کی اولین ترجیح افغانستان میں قیام امن ہے، اس حوالے سے پاکستان کے ساتھ ساتھ چین سے بھی انکے تعلقات میں نمایاں گرمجوشی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ چین کی طرف سے بھی طالبان سے مذاکرات کیلئے فورم کی تجویز اور ہمسایہ ممالک کو افغانستان کے معاملات میں مداخلت نہ کرنے کا بیان انتہائی اہم ہے۔ افغانستان کو آگے بڑھنے کیلئے امریکہ اور نیٹو کا تجربہ ذہن میں رکھنا ہو گا کہ وہ افغان طالبان کو شکست نہیں دے سکے۔ افغان طالبان کی صورتحال پاکستان کی عسکری تنظیموں سے بالکل مختلف ہے۔ وہ حکومت میں رہے ہیں اور سیاسی کردار ادا کرنے پر یقین رکھتے ہیں اس لئے انہیں مذاکرات کے ذریعے سیاسی کردار کی ادائیگی کی طرف لایا جا سکتا ہے۔ اس عمل میں یقیناً پاکستان کو افغانستان کی مدد کرنا ہو گی اور ساتھ ہی اس بات کی بھی سرتوڑ کوشش کرنا ہو گی کہ افغان طالبان میں فضل اللہ یا کسی پاکستانی عسکری تنظیم کیلئے کسی سطح پر کوئی ہمدردی موجود ہے تو اسے ختم کیا جائے تاکہ فضل اللہ اور اس کے لوگوں کی دہشت گردی کی کی کارروائیاں محدود کی جا سکیں۔ دوسری طرف نئے افغان صدر کو اپنی سرزمین سے ’’پراکسی وار‘‘ کی صورتحال کو ختم کرنا ہو گا اور فضل اللہ وغیرہ کے خلاف پاکستان کی ہرممکن حمایت کرنا ہو گی تاکہ افغان سرزمین دہشت گردوں کی آلۂ کار نہ رہے اور اسکی سرحدیں بھی محفوظ رہیں اور بھارت کے ضرورت سے زیادہ اثر و رسوخ کا تاثر زائل ہو سکے۔ اشرف غنی کا دورہ پاکستان کرزئی کے دورہ کے برعکس یقیناً امن کے قیام کیلئے ایک حقیقی کوشش ہے۔ دونوں ملکوں کو اسے بڑی سنجیدگی اور اخلاص کے ساتھ آگے بڑھانا ہو گا کیونکہ اس موقع پر کسی قسم کی کوتاہی یا غیرسنجیدگی بنے بنائے کھیل کو بگاڑ سکتی ہے جس سے پاکستان اور افغانستان امن کیلئے بہت اہم موقع کھو سکتے ہیں۔ یہ خیال رکھنا بھی ضروری ہو گا کہ بہت سی قوتیں اچھی کوششیں، اکنامک کوریڈور منصوبے، جنوبی ایشیا کے استحکام اور علاقائی مضبوط تعلقات کو سبوتاژ کرنا چاہیں گی۔