افغان صدر اشرف غنی ماضی کا بوجھ لیکر پاکستان نہیں آئے: بی بی سی
اسلام آباد (بی بی سی) سابق افغان صدر حامد کرزئی کے مقابلے میں ان کے جانشین اشرف غنی کے پاکستان کے ساتھ دیرینہ تعلقات نہ ہونا ہی بعض مبصرین کی نظر میں انکے دور میں دونوں ملکوں کے درمیان ’نئی شروعات‘ کا ضامن ہو سکتا ہے۔ افغان صدر اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ اپنے اس پڑوسی ملک میں آ چکے ہیں لیکن بعض دیگر اہم افغان شخصیات کی طرح پاکستان انکا مسکن کبھی نہیں رہا۔ بعض مبصرین سمجھتے ہیں کہ پاکستان کیساتھ انکے اس دیرینہ تعلقات کا نہ ہونا دراصل دونوں ملکوں کیلئے اچھی بات ہے کیونکہ بعض دیگر افغان رہنماؤں کے مقابلے میں ان کا ذہن پاکستان کے معاملے میں ’کلین سلیٹ‘ کی طرح ہے اور وہ سابق افغان صدر حامد کرزئی کی طرح ماضی کا بوجھ لیے پاکستان نہیں آ رہے۔ایک تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ اشرف غنی اپنے پیشرو حامد کرزئی کی طرح پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ نہیں رکھتے، اسی لئے ان سے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ نسبتاً کھلے ذہن کے ساتھ پاک افغان تعلقات میں نیا آغاز کر سکتے ہیں۔ اشرف غنی کے ماضی سے باخبر حلقے کہتے ہیں کہ ان میں دیگر افغان رہنماؤں والی بیشتر خصوصیات نہیں پائی جاتیں۔ وہ افغانستان میں لڑائی کے دوران ہجرت کر کے پاکستان نہیں آئے اور نہ ہی کبھی یہاں رہے۔ ان کے دور پار کے رشتہ دار یا جاننے والے تو شاید پاکستان میں ہوں لیکن انکے قریبی عزیز اس ملک میں نہیں پائے جاتے۔ اشرف غنی کے پاکستان میں براہ راست کاروبار کے بھی کوئی شواہد نہیں ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ انہوں نے افغان جہاد میں عملاً حصہ نہیں لیا۔ اس لئے پاکستانی حکومت، خفیہ ادارروں یا فوج کے ساتھ وہ کبھی براہ راست رابطے میں نہیں رہے۔ لیکن ایسا بھی نہیں کہ پاکستان ان کیلئے بالکل اجنبی ملک ہے۔ دسمبر 1979 میں جب روسی افواج افغانستان میں داخل ہوئیں تو چند ہفتوں کے دوران وہ اسلام آباد آئے تھے۔ ان کی زندگی کا بڑا حصہ امریکہ اور اس سے پہلے لبنان میں گزرا ہے۔ اس دوران وہ افغانستان اور پاکستان آتے رہے۔ انہیں کرزئی کی طرح پاکستان سے زیادہ شکوے نہیں۔