• news

بورے والا میں درندگی کی پانچ بوریاں

بورے والا ہسپتال میں ایک عورت دوائی لینے گئی۔ اسے ہسپتال کے چار پانچ ملازمین نے غشی کا انجیکشن لگا کے بے ہوش اور بے بس کیا اور پھر اس کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی۔ برادرم محمود انصاری اس خبر سے بہت ڈسٹرب ہوئے اور برادرم اعجاز ثاقب سے کہا کہ محمد اجمل نیازی کو بلاﺅ۔ نجانے مجھے کیوں بلایا گیا۔ میں بھی ایک بے بس آدمی ہوں۔ ہم صرف کچھ کرنا چاہتے ہیں کہ زندگی کو کچھ اور زندگی بنایا جا سکے اور زندگی سے لطف لینے کا حق ہر کسی کو نصیب ہو۔ چاہنے اور سوچنے سے کیا ہوتا ہے۔ کئی لوگ سوچتے سوچتے اور صرف چاہتے ہوئے دوسرے جہاں چلے گئے مگر کچھ نہ ہوا۔ وہ جو کچھ کر سکتے ہیں وہ کچھ کرنے کے لئے تیار ہی نہیں۔ وہ کر نہیں سکتے یا کرنا نہیں چاہتے۔ یا انہیں کچھ کرنے نہیں دیا جاتا۔
ایتھے کیویں گزاریے زندگی نوں
ایہو سوچدے سوچدے گزر چلے
یہ کس طرح کے معاشرے میں ہم زندہ ہیں۔ ہمیں تو یہ بھی خبر نہیں کہ ہم زندہ ہیں یا شرمندہ ہیں۔ یہاں تو وہ زندہ ہے جو درندہ ہے۔ بے چارے شریف لوگ ایسی زندگی کیا کریں۔
ابھی پولیس نے کچھ کیا ہی نہیں۔ کوئی گرفتاری نہیں ہوئی۔ ڈی پی او بورے والا صادق علی ڈوگر کہتے ہیں کہ ایک دو بندے گرفتار کر لئے گئے ہیں مگر وہاں ہمارے دوست عبدالمنان کہتے ہیں کہ ابھی تک کوئی گرفتاری نہیں ہوئی۔ آج ہماری پولیس اتنی ظالم کیوں ہے۔ ظالموں کی ساتھی کیوں ہے؟
ہسپتال کے ملازم اتنے بااثر ہو گئے ہیں کہ پولیس ان کے سامنے بھی بے بس ہے۔ جو ملازم اس طرح کی جرات ہسپتال کے اندر کر سکتے ہیں وہ کوئی خاص آدمی ہوں گے۔ وہ افسران اور پولیس افسران کی کوئی خاص خدمت کرتے ہوں گے۔ کیا ہسپتالوں میں ایسی جگہیں ہوتی ہیں جہاں اس طرح کی منظم اور مربوط درندگی کی جا سکے۔ وہاں یقیناً میڈیکل سپرنٹنڈنٹ بھی ہوں گے۔ ان کو کیوں خبر نہ ہوئی۔ ڈاکٹرز اور نرسیں بھی ہوں گی۔ وہ سب باخبر ہوں گے کہ یہاں کیا ہوتا ہے۔ یہاں ہوتا ہے تو پھر دوسرے ہسپتالوں میں بھی ہوتا ہو گا۔ ہمارے ممبران اسمبلی وزیر صحت کیوں بننا چاہتے ہیں؟
یہ واقعہ پہلا واقعہ نہیں ہو گا۔ ایسے کئی حادثات ہوتے ہوں گے۔ میڈیا کے ہاتھ یہ واقعہ لگا ہو گا۔ اتنے تجربہ کار مجرم تو ظالم اور بے خوف بھی ہوتے ہیں۔ دن دیہاڑے ہسپتال کے اندر جہاں ڈاکٹر نرسیں اور مریضوں کے لواحقین ہر طرف موجود ہوتے ہیں وہاں ایسی جرات مجرمانہ کوئی عام بات نہیں اور پہلی بات نہیں ہے۔ تفتیش بھی ہونی چاہئے کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے اورکب سے ہو رہا ہے۔ اس ایم ایس کو اور ڈاکٹروں کو شامل تفتیش کیا جائے۔ کچھ رازدار نرسوں سے بھی پوچھ گچھ کی جائے تو بڑے بڑے انکشافات ہوں گے۔ نئی زندگی دینے والے نئی شرمندگی بھی دے سکتے ہیں اور کئی ایسے واقعات کے ذریعے ہر بار نئی زندگی ان کے لہو میں تڑپتی ہو گی۔ ایسے ڈاکٹروں اور ملازموں اور ایم ایس صاحبان سے زندگی کو نئی زندگی بنانے کی کیا توقع ہو سکتی ہے۔ یہ تو موت بانٹنے والوں سے بھی بدتر ہیں۔ جسے شفا مل جائے تو شفا من جانب اللہ ہوتی ہے اور ایسی پولیس ہمارے حکمرانوں کو عزیز ہے جو صرف بے انصافی کر سکے۔ ظلم کر سکے۔ جرم کر سکے۔ جتنے جرم ہوتے ہیں وہ پولیس کے ”تعاون“ سے ہوتے ہیں۔ لفظ تعاون پر غور کریں۔ تعاون سے یہاں مراد رشوت ہے۔ انہیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کون مجرم کہاں رہتا ہے اور کون ظالم کہاں کہاں ظلم کرتا ہے۔
جو پولیس مقتول اور مظلوم کی ایف آئی آر بھی آسانی سے درج نہیں کرتی اس سے کسی اچھائی کی امید ہے۔ کسی سروے کو دیکھ لیں لوگ اس پولیس سے نفرت کرتے ہیں اور سب سے زیادہ شکایتوں کے انبار صرف پولیس والوں کے خلاف ہوتے ہیں۔ اتنی تنقید کے باوجود ہماری پولیس کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ وہ معطل بھی ہو جائیں تو کچھ دنوں کے بعد بہترین پوسٹنگ کے حقدار ہوتے ہیں۔ شہباز شریف مظلوموں کی دلجوئی کے لئے گھر جاتے ہیں یہ دردمندگی کی بات ہے مگر مظلوموں کی دادرسی کیوں نہیں ہوتی؟ ایسے مجرموں کو عبرتناک سزا کیوں نہیں دی جاتی۔ خالق کائنات نے سخت سزائیں مقرر کیں تو کہیں تو ان کا کچھ فائدہ ہو گا۔ پاکستان کے ساتھ سعودی عرب کا موازنہ کر کے دیکھ لو۔ وہاں سخت سزائیں ہیں تو جرم کتنا کم ہے۔ بہت کم لوگوں کو یہ سخت سزا ملی ہو گی۔ ہمارے ہاں سزائیں ہیں مگر ان پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔ پچھلے کئی برسوں سے قتل کے لئے سزائے موت معطل ہے۔ سینکڑوں قاتل منتظر ہیں مگر انہیں موت نصیب ہی نہیں ہوتی۔ وہ موت کے انتظار میں پڑے ہیں۔ انہوں نے جس شخص کو قتل کیا تھا تو وہ پوری رعایت کے مستحق ہیں جسے قتل کیا گیا کیا اس کی زندگی قاتل سے کمتر تھی؟ صرف یورپ امریکہ کو خوش کرنے کے لئے اپنی حکومت پکی کرنے کے لئے یہ بے حسی اختیار کی گئی ہے۔ سزا سے سزا کا ڈر زیادہ اہم ہوتا ہے۔ سزا ڈرانے کے لئے ہوتی ہے۔ یورپ میں جو بھی جرم کرتا ہے اسے یقین ہوتا ہے کہ میں سزا سے بچ نہیں سکوں گا۔ وہاں جرم کم ہیں۔ ہمارے ملک میں عادی مجرم کو معلوم ہوتا ہے کہ میں سزا سے بچ جاﺅں گا۔ تو پھر وہ کیوں نہ مسلسل اور متواتر جرم کرے۔
بورے والا میں ہسپتال کے ملازمین کو عبرتناک سزا دی جائے۔ میں تو کہتا ہوں کہ انہیں اسی ہسپتال میں سب کے سامنے پھانسی دی جائے اور ان کی لاشیں کئی دنوں تک لٹکتی رہیں پھر ہم دیکھیں گے کہ کون اتنی درندگی کرتا ہے۔ کسی عورت کی عزت لوٹنا قتل کرنے سے زیاد بھیانک جرم ہے۔ عزت لٹا کر عورت جیتے جی مر جاتی ہے۔ وہ مر جائے تو اس کے لئے موت زیادہ بیش بہا ہو گی۔ وہ عورت زندگی بھر نفرت بھری نگاہوں کا سامنا کرتی ہے۔
ایک عورت کو بے ہوش کر کے اس کے ساتھ درندگی کرنا درندگی سے بڑھ کر درندگی ہے۔ یہ کون لوگ ہیں جو موت کی حقیقت سے ہی واقف نہیں ہیں۔ وہ تو لذت گناہ سے بھی بے خبر ہیں۔ ایسا تو درندے بھی نہیں کرتے۔ جنگل میں بھی کوئی قانون اور طریقہ ہے مگر انسانوں کے جنگل میں جانوروں اور درندوں سے بھی بدتر لوگ ہوتے ہیں۔ عورت کو بے ہوش کر کے زیادتی کرنا تو دہرا جرم ہے۔ ڈی پی او بورے والا سے رپورٹ طلب کر لی گئی ہے۔ اس رپورٹ سے کیا ہو گا؟

ای پیپر-دی نیشن