شرح سود میں نصف فیصد کمی: بجلی سبسڈی کے خاتمے‘ گیس سرچارج لگنے سے مہنگائی بڑھے گی: سٹیٹ بینک
کراچی (سٹاف رپورٹر+نوائے وقت رپورٹ) سٹیٹ بنک نے 2014ء کی آخری مانیٹری پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے آئندہ دو ماہ کیلئے شرح سود 0.50بیسز پوائنٹ کمی کے بعد 9.5 فیصد کر دی ہے۔ واضح رہے گذشتہ 4ماہ سے شرح سود 10 فیصد پر برقرار رکھی گئی تھی۔ سٹیٹ بنک نے کہا ہے کہ بجلی پر سبسڈی کے خاتمے اور گیس پر سرچارج عائد ہونے سے مہنگائی بڑھے گی۔ توانائی بحران کے باعث صنعتوں کی پیداوار متاثر ہو گی۔ سٹیٹ بنک نے نومبر، دسمبر مانیٹری پالیسی کا اعلان کردیا ہے جس کے تحت ڈسکاؤنٹ ریٹ میں 50 بی پی ایس کمی کی گئی ہے ۔اس کمی کے بعد ڈسکاؤنٹ ریٹ 9.5 فیصدہوگیا ہے۔ یہ اعلان کراچی میں سٹیٹ بینک آف پاکستان اشرف محمود وتھرا کی سربراہی میں سٹیٹ بینک کے مرکزی بورڈ آف ڈائریکٹرز کے اجلاس میں کیا گیا۔ اجلاس سے خطاب کرے ہوئے گورنر سٹیٹ بینک نے بتایا کہ سیلاب کا محدود دائرہ اجناس کی عالمی قیمتوں کا سازگار جحان ستمبر کے بعد کے زری پالیسی فیصلے کے نمایاں پہلو ہیں۔ اکتوبر 2014ء میں گرانی بلحاظ صارف اشاریہ قیمت (CPI)(سال بہ سال) تیزی سے گھٹ کر 5.8 فیصد پر آگئی۔ اس کمی کی وضاحت ان عوامل سے ہوتی ہے۔ غذائی اشیا کی بھرپور رسد، جس سے تلف پذیر اشیا کی قیمتیں قابو میں رہیں، زوال پذیر سرکاری قیمتیں جن میں اجناس خصوصاً تیل کی بین الاقوامی قیمتوں میں کمی شامل ہے، پست گرانی کی توقعات جو آئی بی اے اور سٹیٹ بینک کے اعتمادِ صارفین سروے سے ظاہر ہوتی ہیں اور نمایاں بیس افیکٹ ہے۔ یہ حالات بالعموم دیگر معاشی متغیرات کے امکانات کے حوالے سے نیک شگون ہیں۔کچھ خطرات ہیں۔ اوّل، وسط تا طویل مدت کے دوران نیچے کی طرف جانے کا رجحان ابھی دیکھنا باقی ہے کیونکہ اس کی بنیاد ’تلف پذیر اشیااور ’تیل‘ کی تغیر پذیر قیمتوں پر ہے۔ دوسرے پچھلے بیان میں جو خطرات بیان کئے گئے تھے جیسے بجلی کی سبسڈی میں کٹوتی اور گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس پر محصول عائد کرنا ابھی تک قائم ہیں۔ اگر انہوں نے حقیقت کا روپ دھارا تو گرانی کے امکانات بدل کر بلندی کی طرف جاسکتے ہیں۔ کورافراط زرپر گرانی کا دباؤ برقرار ہے۔ تیل کی موجودہ پست قیمتیں نمو کی کچھ ضائع شدہ تحریک کو بچا سکتی ہیں۔ توانائی کے شعبے میں رکاوٹوں کی وجہ سے بڑے پیمانے کی اشیا سازی کی نمو محدود رہے گی۔ نمو کی تحریک کا اصل زور 15ء کے بقیہ مہینوں کے زرعی نتائج سے آئے گا۔ خریف کی بعض فصلوں کو سیلاب سے ہونے والے محدود نقصانات کو چھوڑ کر زرعی پیداوار کی کارکردگی پچھلے سال سے بہتر ہونے کی توقع ہے، خصوصاً اس وقت جبکہ ربیع کی فصلوں کیلئے ترغیبات کا اعلان کیا جاچکا ہے جیسے گندم کی امدادی قیمت میں 100 روپے کا حالیہ اضافہ حکومت نے میزانیہ کاعدم توازن کو کم کرنے میں خاصی پیشرفت دکھائی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اخراجات اور قرض لینے کے موجودہ انداز کے پیش نظر حکومت مزید مالیاتی استحکام حاصل کرنے کے درست راستے پر گامزن ہے۔ اس صورتحال کے سٹیٹ بینک کے زری انتظام کیلئے مثبت مضمرات ہیں۔ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ آئندہ مہینوں میں نجی شعبے کے قرضے کے چکر پر اس کا سازگار اثر ہوگا۔ تاہم طویل مدت میں مالیاتی استحکام حاصل کرنے کیلئے ٹیکس بنیاد کو وسیع کرنے کی ساختی اصلاحات ضروری ہیں۔گرتی ہوئی گرانی کے ساتھ تیل کی پست قیمت برآمدات کی مسابقت کی قوت بہتر بنا سکتی ہے۔ دوسری طرف درآمدات اجناس کی پست عالمی قیمتوں کا فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔ 15ء کے بقیہ حصے کے دوران مزید بڑھ سکتی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان میں برآمدات کے شعبے کے لئے خاصی درآمدی شدت کے پیش نظر برآمدات کی مسابقت میں اضافہ ہو سکتا۔ رواں مالی سال کے آخر میں اس کے امکانات بہتر ہوسکتے ہیں۔ اس دوران برآمدات میں موجودہ سست رفتاری کپاس کی زوال پذیر عالمی قیمتوں اور کمزور عالمی طلب کے ماحول میں کم قدر اضافہ کی حامل ٹیکسٹائل مصنوعات میں سخت مسابقت کی وجہ سے مزید مشکل میں مبتلا ہوگئی ہے۔ توقع ہے کہ تجارتی خسارہ دباؤ میں رہے گا اور کارکنوں کی ترسیلات کی بھرپور نمو کسی حد تک جاری حسابات کے کھاتے کی کمزوریوں کی شدت کم کرتی رہے گی۔حکومت کی مختلف حالیہ اور جاری کوششوں کے جواب میں زرِ مبادلہ کی بیرون ملک سے آمد ہوتی رہے گی۔ان حالات کے پیش نظر سٹیٹ بینک کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے 17 نومبر 2014ء سے پالیسی ریٹ میں 50 بیسس پوائنٹ کمی کرکے اسے 9.5 فیصد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔