• news

جی 20 :امریکا کا ما حولیاتی تبدیلیوں کے معاہدے کیلئے 3 ارب ڈالر امداد کا اعلان

برسبین (بی بی سی+ نیوز ایجنسایں) امریکی صدر باراک اوباما نے اقوام متحدہ کی قیادت میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے معاہدے کےلئے تین ارب ڈالر کی امداد کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ تمام ممالک کو اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے، سیکیورٹی کا انحصار چھوٹے ممالک کو ہراساں کرنے پر نہیں ہونا چاہئے، چھوٹے جزائر اور سرحدوں کے تنازعات سے محاذ آرائی کا ایک سائیکل جنم لے سکتا ہے ¾ یوکرائن کےخلاف روسی جارحیت پوری دنیا کےلئے ایک خطرہ ہے ۔ آسٹریلیا کے شہر برسبین میں جی 20 سربراہ اجلاس کے موقع پر ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگرچین اور روس اس معاہدے پر اتفاق رائے کرسکتے ہیں تو بین الاقوامی برادری بھی ماحولیاتی تبدیلیوں کی روک تھام کے حوالے سے کسی جامع معاہدے پر پہنچ سکتی ہے۔ اوباما نے اقوام متحدہ کی قیادت میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے معاہدے کےلئے تین ارب ڈالر کی امداد کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ تمام ممالک کو اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ باراک اوباما نے ایشیاءمیں پیدا ہونےوالے خطرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایشیائی ممالک میں محاذ آرائی میں اضافہ ہوسکتا ہے ۔ انہوں نے شمالی کوریا کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ چھوٹے جزائر اور سرحدوں کے تنازعات سے محاذ آرائی کا ایک سائیکل جنم لے سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یوکرائن کےخلاف روسی جارحیت پوری دنیا کےلئے ایک خطرہ ہے۔ امریکا دنیا کی واحد سپر پاورہونے کے ناطے یوکرائن میں روس کی جارحیت کےخلاف عالمی برادری کی قیادت کررہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم مغربی افریقہ میں ایبولا وائرس پر قابو پانے اور یوکرائن میں روس کی جارحیت کےخلاف رہنمائی کررہے ہیں ، انہوں نے کہا کہ ایشیا کی سیکیورٹی کا انحصار بڑے ممالک کی جانب سے چھوٹے ممالک کو حراساں کرنے پر نہیں بلکہ باہمی اتحاد اور بین الاقوامی قوانین پر ہونا چاہئے، انہوں نے کہا کہ ایشیا پیسفک میں اتحادیوں کےساتھ امریکہ کے عہد پرکوئی شبہ نہیں کیا جا سکتا۔سربراہی اجلاس سے قبل اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بانکی مون نے اس اجلاس میں شریک ممالک پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ اس میں یوکرائن کے بحران اور ایبولا وائرس کے پھیلاو¿ کے خطرات جیسے مسئلے ساتھ ساتھ ماحولیات میں تبدیلی پر بھی غور و خوض کریں۔ کانفرنس مخالف گروپ کے مظاہرے ہو رہے ہیں۔ پیوٹن کی جانب سے یوکرائن ایشو پر کانفنس نہیں ادھوری چھوڑ کر وطن واپس جانے کا امکان ہے۔

ای پیپر-دی نیشن