تھر میں قحط کی صورتحال سنگین‘ مزید گیارہ بچے دم توڑ گئے
مٹھی +عمر کوٹ ( نامہ نگار+ نوائے وقت رپورٹ + نیٹ نیوز) سندھ کے قحط زدہ علاقے تھرپارکر میں غذائی قلت کے باعث پیر کو مزید 11 بچے جان کی بازی ہار گئے۔ جس کے بعد گذشتہ 45 دنوں میں تھرپارکر میں ہلاکتوں کی تعداد 84 تک جا پہنچی۔ تفصیلات کے مطابق تھر میں غذائی قلت کے باعث معصوم بچوں کی ہلاکت کی صورتحال مزید سنگین ہو گئی۔ 24 گھنٹوں کے دوران تھرپارکر کے مختلف علاقوں میں 18 بچے جان کی بازی ہار گئے۔ پیر کے روز ہونے والی ہلاکتوں کے بعد تھرپارکر میں غذائی قلت کے باعث موت کے منہ میں جانے والے بچوں کی تعداد 45 دنوں میں 84 ہو گئی ہے جبکہ رواں برس اب تک کل 470 ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔ ڈسٹرکٹ ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ عمر کوٹ کی جانب سے جاری کئے گئے اعداد و شمار کے مطابق سول ہسپتال عمر کوٹ میں غذائی قلت سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد 85 ہے‘ جن میں سے 60 نومولود بچے ہیں۔ یہ وہ ہلاکتیں ہیں جو میڈیا میں رپورٹ ہوئیں جبکہ دور دراز کے گا¶ں اور نجی کلینکس میں مرنے والے بچوں کی تعداد عموماً رپورٹ ہی نہیں ہوتی ہے۔ بی بی سی کے مطابق تھرپارکر کے حکام قحط اور بیماریوں سے بچوں کی ہلاکتوں کی تعداد 293 بتاتے ہیں جبکہ مقامی میڈیا کے مطابق یہ تعداد 506 ہے جو روزانہ کی بنیاد پر نام اور پتے کے ساتھ یہ اموات رپورٹ کر رہا ہے۔ ڈپٹی کمشنر تھرپارکر آصف جمیل نے کہا ہے کہ 2 دسمبر 2013 سے لے کر17 نومبر 2014ءتک پانچ سال سے کم عمر کے 293 بچے ہلاک ہو چکے ہیں۔ محکمہ ریونیو کی جانب سے تصدیق کرائی گئی تو 220 بچوں کے لواحقین کا تعلق تھر سے تھا۔ انہوں نے کہا اب معاوضہ دیا جائے گا تو کئی دیگر مسائل سامنے آئیں گے اگر بچے کی حالت تشویش ناک ہے تو بھی اس کو ہسپتال میں لایا جائے گا کہ اگر فوت ہو گیا تو بھی رجسٹرڈ تو ہو گا اور اس کے بدلے میں کچھ نہ کچھ معاوضہ مل جائے گا۔ تھر کے ڈپٹی کمشنر نے تصدیق کی ہے کہ 7 بچوں کی ہلاکت غذا کی کمی کے باعث ہوئی ہے۔ واضح رہے کہ سندھ کے وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ صوبائی اسمبلی کے فلور پر یہ دعویٰ کر چکے ہیں کہ ایک بچے کی بھی ہلاکت بھوک سے نہیں ہوئی۔ ضلعی افسر صحت ڈاکٹر عبدالجلیل نے بتایا کہ نومولود بچوں کی ہلاکتوں کی چار وجوہات ہیں۔ سرفہرست کم وزن‘ وقت سے پہلے پیدائش، برتھ اے سفکیزیا جس میں نومولود بچوں کو سانس لینے میں تکلیف ہوتی ہے اور چوتھا سپیس جس میں دائی بچے کی پیدائش کے وقت صفائی ستھرائی کا خیال نہیں رکھتی۔ ڈاکٹر جلیل نے خوراک کی قلت کو تسلیم کیا اور کہاکہ ماں کی صحت اچھی نہیں ہو گی تو یقیناً بچہ کمزور پیدا ہو گا۔ بقول ان کے جب بارشیں نہیں ہوتیں اور قحط پڑ جائے تو مناسب غذا نہیں ملتی جس کی وجہ سے ماں کمزور ہوتی ہے۔ حکومت کے پاس صرف ہسپتالوں میں ہلاک ہونے والے بچوں کی تعداد دستیاب ہے‘ ڈاکٹر عبدالجلیل کا کہنا ہے کہ گھروں میں فوت ہونے والے بچوں کی تعداد انتہائی کم ہو گی۔
تھر