فیصل آباد کینال روڈ پر ہونے والے جان لیوا حادثات نے اسے قاتل روڈ بنا دیا!
احمد کمال نظامی
فیصل آباد کینال روڈ پر ہونے والے جان لیوا حادثات نے اسے قاتل روڈ بنا دیا!
سڑکوں پر تیزرفتاری اور خونین حادثے
ٹریفک پولیس کی عدم دلچسپی کے باعث تیزرفتاری روز بروز بڑھ رہی ہے
کینال روڈ پر کار کے تیز رفتاری کے باعث نہر رکھ برانچ میں گر کر اپنی کالونی فیصل گارڈن کی کاروباری شخصیت محمد امین کے بیس سالہ بیٹے اسامہ کی دل کو دہلا دینے والی موت یاد آ گئی
گذشتہ دو عشروں کے دوران کینال روڈ پر تیز رفتاری کے باعث متعدد حادثات رونما ہوچکے ہیں
کینال روڈز کے حادثات میں بچوں کے والدین اور سرپرستوں کے علاوہ ضلعی انتظامیہ اور ٹریفک پولیس کی نااہلی کا بھی بڑا عمل دخل ہے
گذشتہ روز جام صادق پُل خیرپور سندھ کے قریب مسافر بس اور ٹرک کے حادثے میں بس الٹ گئی اور اس پر سوار 62 مسافر جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے موقع پر جاں بحق ہو گئے۔ یہ بس سوات سے کراچی جا رہی تھی ۔ میں نے اس خونین حادثے کے مناظر ٹیلی وژن کی سکرین پر دیکھے اور جاں بحق ہونے والے اکثر افراد کے جو انٹرویوز دکھائے گئے ہیں انہیں دیکھ کر ہر شخص اشک بار ہوا۔ اس حادثے میں سوات کے مختلف خاندانوں کی نوعمر بچیاں جو معجزاتی طور پر زندہ رہ گئی ہیں ان کو صدمے سے نڈھال اور اپنے پیاروں سے دائمی جدائی پر خاموش نظروں سے حادثے کے مقام پر پھیلی ہوئی اداسی کو ٹکٹکی باندھے ہوئے دیکھتے پا کر یوں محسوس ہو رہا تھا کہ ان کے اندر کوئی چیز ٹوٹ کر رہ گئی ہے۔ انہیں شاید اس حادثے کی مکمل سنگینی کا ادراک نہ ہو، تاہم کیمرے کی آنکھ نے موت سے بچ جانے والی ان نوعمر بچیوں کے اندر کے کرب کو ہر دیکھنے والی آنکھ سے آنسو¶ں کی بے اختیار جھڑی کی صورت میں برسنے والی برسات میں تبدیل کر دیا ہے۔ ڈی سی او خیرپور اس حادثے میں جاں بحق ہونے والے مختلف خاندانوں کی میتیں لے کر سی۔ون30 طیارے کے ذریعے سوات جانے کے لئے رسول پور ائر پورٹ تک خود گئے۔ جاں بحق ہونے والے 59 افراد میں سے 45 کی میتیوں کی شناخت ہو چکی ہے ، مرنے والوں کا تعلق سوات سے تھا لہٰذا ڈی سی او خیرپور نے سوات سے تعلق رکھنے والے افراد کی میتیں بذریعہ طیارہ رسول پور ائر پورٹ سوات پر لے گئے۔ ٹیلی وژن کی سکرین پر خیرپور کے خونیٍ حادثے کے مناظر کو دیکھ کر مجھے کینال روڈ پر کار کے تیز رفتاری کے باعث نہر رکھ برانچ میں گر کر اپنی کالونی فیصل گارڈن کی کاروباری شخصیت محمد امین کے بیس سالہ بیٹے اسامہ کی دل کو دہلا دینے والی موت یاد آ گئی۔ اسامہ انتہائی پیارا لڑکا تھا اور کینال روڈ پر واقع ایک نجی تعلیمی ادارے میں زیر تعلیم تھا۔ کینال روڈ پر متعدد تعلیمی ادارے، لڑکوں اور لڑکیوں کے سکول کالج تعمیر ہو چکے ہیں چونکہ ان تعلیمی اداروں کی معیاری تعلیم کی وجہ سے ان کی بہت زیادہ نیک نامی اور شہرت پورے شہر میں پھیلی ہوئی ہے لہٰذا شہر کے تمام حصوں سے انتہائی کھاتے پیتے اور متمول گھرانوں کے لڑکے لڑکیاں ان سکولوں کالجوں میں پڑھتے ہیں یہ بچے امیر گھرانوں کے ہیں لہٰذا اکثر لڑکوں کے والدین انہیں ذاتی گاڑیاں تک خرید کر لے دیتے ہیں۔ جس روز اسامہ عمر کی کار تیز رفتاری کے باعث نہر میں گری اس روز کار میں 19 سالہ ارسلان بھی سوار تھا۔ ارسلان اسامہ کے ساتھ اس حادثہ کا شکار ہوا لیکن اللہ نے اس کی جان بچا لی جبکہ اسامہ کے جاں بحق ہو جانے کے بعد بھی اس کے گھر والوں کو یقین ہے کہ وہ کسی روز واپس آ جائے گا۔ مجھے 23 اکتوبر کو کینال روڈ پر رضا گارڈن کے قریب رونما ہونے والا ایک دوسرا حادثہ بھی یاد ہے جس میں دو نوعمر بھائی 17 سالہ دانیال اور 15 سالہ معاذ سوار تھے۔ وہ دونوں بھی کینال روڈ پر تیز رفتاری کے خوگر ہو چکے تھے۔ اس روز اس کی کار تیز رفتاری کے باعث بے قابو ہو گئی اور ایک درخت سے ٹکرا کر سڑک سے نیچے جاگری اور یہ دونوں لڑکے بھی اپنی کار کی تیز رفتاری کی نذر ہو کر اپنی زندگیوں سے محروم ہو گئے۔ جواں عمر بچے حادثات میں لقمہ اجل بنتے ہیں تو ان کے والدین جیتے جی مر جاتے ہیں اور یہی کچھ دانیال اور معاذ کے والدین کو پیش آیا ہے۔ ابھی ان دونوں لڑکوں کو لحد میں اترے ایک سال بھی نہیں ہوا ہے اور ان کی بے وقت موت کا صدمہ ہر اس شخص کے دل میں تازہ ہے جنہوں نے ان کی موت کا منظر دیکھا ہے۔ شاید یہ انہیں ٹریفک حادثوں کا اثر ہے کہ خود میں نے کینال روڈ پر تیز رفتاری سے گاڑی چلانا ترک کر دی ہے۔ کینال روڈ کو فیصل آباد کے منی موٹر وے کی حیثیت حاصل ہے اور اب تو اس کو نہر کے دونوں اطراف میں تین تین لین میں بہت کشادہ تعمیر کر دیا گیا ہے اور اکثر لانگ ڈرائیو کے شوقین اور منچلے روزانہ ہی کسی نہ کسی حیلے بہانے کینال روڈ پر ڈرائیونگ کرتے ہوئے نظر آ جاتے ہیں۔ فیصل گارڈن کینال روڈ فیصل آباد شیخوپورہ روڈ کے سنگم پر واقع ہے اس کا ایک صدر گیٹ شیحوپورہ روڈ پر اور دوسرا کینال روڈ کی طرف ہے کینال روڈ پر گاڑی کے چڑھنے پر اس کی رفتار خود بخود تیز ہو جاتی ہے۔ میں برسوں سے اپنی کار کو کینال روڈ پر تیز رفتاری کے ساتھ چلاتا رہا ہوں۔ گذشتہ دو عشروں کے دوران کینال روڈ پر تیز رفتاری کے باعث متعدد حادثات رونما ہوچکے ہیں۔ کبھی والدین کے اکلوتے بیٹے کی موٹر سائیکل کسی سست رفتار وہیکلز سے جا ٹکرائی تو کبھی کسی منچلے کی کار تیز رفتاری کے باعث نہر میں گر گئی۔ کبھی گاڑی میں سوار سب کے سب لوگ اللہ کو پیارے ہو گئے چونکہ کینال روڈ پر کار چلاتے ہوئے بہت زیادہ مزا آتا ہے لہٰذا بالکل بھی پتہ نہیں چلتا کہ کار کب تر تیزرفتارہو جاتی ہے۔ تاہم متذکرہ بالا دونوں حادثات کا نتیجہ ہے کہ میں اب نہایت احتیاط سے اپنی کار چلانے لگا ہوں۔ کینال روڈ پر جان لیوا حادثات معمول بن چکے ہیں۔ کینال روڈز کی خوبصورتی کے باعث عبداللہ پور سے گٹ والا چوک تک دونوں اطراف میں متعدد نجی تعلیمی ادارے قائم ہو گئے ہیں۔ یہ تعلیمی ادارے بہت زیادہ معیاری بھی ہیں اور مہنگے بھی لہٰذا زیادہ تر شہر کے متمول گھرانوں کے لڑکے، لڑکیاں ان تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہیں اور اکثر لڑکے ایسے ہوتے ہیں جن کو والدین موٹرسائیکلیں اور کار خرید دیتے ہیں اور وہ ڈرائیونگ لائسنس حاصل کرنے کی عمر کو پہنچے بغیر ہی اپنی اپنی وہیکلز کو کینال روڈ پر لے آتے ہیں۔ کینال روڈز کے حادثات میں بچوں کے والدین اور سرپرستوں کے علاوہ ضلعی انتظامیہ اور ٹریفک پولیس کی نااہلی کا بھی بڑا عمل دخل ہے کہ شہر میں یہ خوبصورت منی موٹر وے تو تعمیر کر دیا گیا ہے جبکہ موٹر وے پولیس کی طرح کینال روڈز پر ٹریفک پولیس تیز رفتاری جیسے عمل کو روکنے اور کم عمر ڈرائیوروں کو موٹر سائیکلیں اور کار یں چلانے سے روکنے کے لئے کہیں بھی موجود نہیں ہوتی۔ ٹریفک پولیس کے چند ایک ٹریفک سارجنٹ عبداللہ پور چوک کے قریب واپڈا کے دفاتر کے قریب تک نظر آتے ہیں اور وہ مختلف لوگوں کے روزانہ اس سے زیادہ چالان نہیں کرتے جو ان کی روزانہ کی کارروائی کے لئے ضروری ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں ٹریفک سارجنٹ صرف موٹرسائیکلوں اور کاروں کے مطلوبہ تعداد میں چالان کرنے کو ہی فرض منصبی کی ادائیگی پر محمول کرتے ہیں۔ کینال روڈ پر ہونے والے حادثات کی تعداد میں اچھا خاصا اضافہ ہو گیا ہے اور زیادہ تر شہر کے بااثر اور بڑے لوگوں کے بچے تیزرفتاری کے باعث اپنی موٹرسائیکلیں اور کاریں درختوں سے ٹکراتے اور نہر میں گراتے ہیں۔ شہر کے ماضی کے ایک سٹی ناظم چوہدری ممتاز چیمہ کا نوجوان بیٹا عرفان چیمہ بھی تیزرفتاری کے باعث اپنی کار کو درخت سے ٹکرا کر جاں بحق ہوا تھا اور یہ حادثہ ان دنوں میں رونما ہوا جب اس کے والد سٹی ناظم تھے۔ اس وقت کی روڈز پر سپیڈ بریکروں کی تعمیر کے ہرگز بھی حق میں نہیں ہوں لیکن گاڑیوں کی رفتار کے کنٹرول کے لئے کینال روڈز پر سپیڈ بریکرز نہ بنائے جائیں تو پھر کاروں اور موٹرسائیکلوں کی تیزرفتاری پر کس طرح قابو پایا جا سکتا ہے۔ گاڑیوں کی رفتار کی چیکنگ کے لئے کینال روڈز پر مختلف مقامات پر کیمرے نصب ہونے چاہئیں اور بلا ڈرائیونگ لائسنس گاڑیاں چلانے والے نوعمر لڑکوں کے خلاف تادیبی کارروائیاں ہونی چاہئیں۔ اگر ضلعی انتظامیہ نے کینال روڈز پر تیز رفتاری کے رجحان کو نہ روکا تو مستقبل میں کینال روڈز پر ٹریفک کے حادثات کی تعداد بہت زیادہ بڑھ سکتی ہے۔
کراچی کے بعد یہ پروگرام فیصل آباد میں بھی آئی ٹی کے شعبے کی ممتازشخصیت ڈاکٹر ضیا الدین کی زیر نگرانی شروع ہو گا۔
سیلانی ہاوس میں جدید سہولتوں اور مشینری سے آراستہ ہسپتال بھی بنے گا جہاں غریب اور نادار افراد کو علاج معالجہ کی مفت سہولت فراہم ہو گی
سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ کی جانب استخارہ اور صدقے کے بکروں کی فراہمی کا بھی بندوبست کیا گیا ہے۔
کراچی سے تعلق رکھنے والی ممتاز روحانی شخصیت مولانا بشیر احمد فاروقی نے اس ادارے کی بنیاد رکھی اس و قت یہ ادارہ ان کی سرپرستی میں کراچی، حیدر آباد ، اسلام آباد اور فیصل آباد میں خدمت خلق کے سلسلے میں سرگرم عمل ہے