آبادی میں اضافے کے چیلنج سے نمٹنے کیلئے قومی ایمرجنسی کی ضرورت ہے: صدر ممنون
اسلام آباد (نامہ نگار+ سپیشل رپورٹ+ ایجنسیاں) صدر مملکت ممنون حسین نے کہا ہے کہ کم اور ناکافی وسائل کے باوجود یہ ممکن ہے کہ ہم صحیح سمت میں تعلیم اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کیلئے سرمایہ کاری کریں، نتیجے کے طور پر مضبوط معیشت اور آنے والی نسلوں کی خوشحالی کا باعث بنے گی، آبادی میں اضافے پر قابو پا کر سماجی و اقتصادی ترقی کے ثمرات حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز پاپولیشن ایسوسی ایشن آف پاکستان (پی اے پی) اور بحریہ یونیورسٹی کے اشتراک سے 15 ویں سالانہ دو روزہ پی اے پی کانفرنس کی افتتاحی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کیا۔ صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان ممنون حسین اس موقع پر مہمان خصوصی تھے۔ انہوں نے کانفرنس کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم سب کو مل جل کر کام کرنا ہوگا تاکہ تمام گروہوں میں اس اہم موضوع پر اتفاق رائے حاصل کرسکیں اور اجتماعی طور پر پاکستان کو دنیا کی اہم ترین اقوام میں شامل کرنے کے عہد کی تجدید کریں جوکہ ہمارے عظیم قائداعظم محمد علی جناح کا خواب تھا، صدر مملکت نے کہا کہ بڑھتی ہوئی آبادی کا چیلنج نہ صرف انفرادی بلکہ اجتماعی زندگی کے ہر پہلو پر اثر انداز ہو رہا ہے، بڑھتی ہوئی آبادی درحقیقت ایک بڑا چیلنج ہے اور اس پر قابو پا کر ہی سماجی و اقتصادی ترقی کے ثمرات حاصل کئے جا سکتے ہیں، بحریہ یونیورسٹی کے ریکٹر وائس ایڈمرل (ریٹائرڈ) شاہد اقبال ہلال امتیاز (ملٹری) نے اپنے خطاب میں مہمان خصوصی کو خوش آمدید کہتے ہوئے ان کی تقریب میں آمد پر شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ اپنے باصلاحیت ، تجربہ کار اور مخلص اساتذہ کی بدولت بحریہ یونیورسٹی بہترین تدریسی ماحول مہیا کررہی ہے جو کہ یونیورسٹی کا اپنے مقصدکے حصول میں لگن کا ثبوت ہے، شہناز وزیر علی، صدر پاپولیشن ایسوسی ایشن آف پاکستان نے تقریب کے آغاز میں کہا کہ نیشنل اکنامک سروے 2013-14ء کے مطابق دیہی علاقوں میں صحت سے متعلق اعداد و شمار بہتری کی طرف مائل ہیں جیسے کہ تربیت یافتہ دائیوں کی تعداد 39% سے بڑھ کر 52% تک ہو چکی ہے ، باسہولت ڈیلیوری 34% سے 48% اور عمر کی حد عورتوں میں 67 سال اور مردوں میں 65 سال تک بڑھ چکی ہے۔ صدر ممنون حسین نے کہا ہے کہ پاکستان میں تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کی روک تھام کیلئے قومی اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔ صدر نے کہا کہ پھیلتی ہوئی آبادی نہ صرف انفرادی طور پر لوگوں کو متاثر کر رہی ہے بلکہ اس سے ملک متاثر ہو رہا ہے۔ صدر نے کہاکہ پاکستان کے وسائل اور آبادی کے درمیان توازن پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ صدر نے آبادی کے دبائو کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک جامع منصوبہ پر زور دیا۔ صدر نے آبادی کی منصوبہ بندی کے لئے خواتین کی تعلیم کو لازمی قرار دیا۔ صدر مملکت نے کہا ہے کہ آبادی میں اضافے کے چیلنج سے نمٹنے کے لئے قومی ایمرجنسی کی ضرورت ہے اور جنگی بنیادوں پر اقدامات کرنا ہونگے، پاکستان کو فیملی پلاننگ پروگرام میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کی ضرورت ہے، صوبے فیملی پلاننگ پروگرام میں سروسز کے لئے زیادہ سے زیادہ فنڈز فراہم کریں، حکومت ملک کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے کے لئے پُرعزم ہے، ملک میں امن و استحکام کے لئے اعلٰی معیار زندگی بہت ضروری ہے، امن و استحکام کے لئے نئی نسل کو برابر مواقع اور انصاف کی فراہمی ناگزیر ہے۔ صدر مملکت نے مزید کہا کہ شرح پیدائش میں اضافے سے ماؤں کی شرح اموات تشویشناک حد تک بڑھ گئی ہے۔ سرکاری اداروں پر عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لئے خود احتسابی کا نظام رائج کیا جائے۔ آبادی پر کنٹرول کے لئے بنگلہ دیش ماڈل رائج کیا جانا چاہئے۔ صدر نے کہاکہ ہمیں اپنے عوام کی بہتری کے لئے انقلابی اقدامات متعارف کرانے کی ضرورت ہے، مجھے یقین ہے کہ پاکستان ایک مضبوط معیشت اور صحت مند و خوشحال آبادی کے ساتھ بہت جلد ایک فعال جمہوری ملک کی حیثیت سے اقوام عالم میں اپنا جائز مقام حاصل کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ آزادی سے لے کر اب تک چھ گنا سے زائد شرح اضافے کے ساتھ ہماری آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے، آج ہم دنیا میں چھٹا سب سے بڑا ملک ہیں اور 2050ء میں پانچواں بڑا ملک بننے کی توقع کی جاتی ہے۔ صدر ممنون حسین نے کہاکہ اپنے محدود وسائل کو تعلیمی سہولیات اور ہنرمندی پر صحیح اور مناسب انداز میں استعمال کرنا ممکن ہے جس سے معیشت کو ازسر نو مضبوط بنانے اور آئندہ کی نسلوں کی خوشحالی کو یقینی بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔ صدر مملکت نے مائوں اور نوزائیدہ بچوں کی شرح موت میں تشویش ناک حد تک اضافے اور بڑھتی ہوئی آبادی کے چیلنج سے نمٹنے کے لئے علماء کو اجتہاد کا مشورہ دیا۔ صدر مملکت نے کہاکہ قدیم و جدید فکر اور لٹریچر پر نظر رکھنے والے علماء کا خیال ہے کہ زیادہ آبادی رکھنے والے ممالک کے لئے فیملی پلاننگ درست ہے کیونکہ اس کے بغیر محدود وسائل والی قومیں درپیش چیلنجوں سے نمٹنے میں کامیاب نہیں ہو سکیں گی۔