آئی ڈی پیز کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کریں گے، پرامن احتجاج کی اجازت ہو گی، قانون ہاتھ میں نہیں لینے دیں گے: نوازشریف
اسلام آباد (محمد نواز رضا/ وقائع نگار خصوصی) باخبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے وفاقی حکومت نے30 نومبر کو پاکستان تحریک انصاف کے جلسہ کے موقع پر دارالحکومت اسلام آباد کو محفوظ شہر بنانے کیلئے پوری ریاستی مشینری کو بروئے کار لانے کا فیصلہ کیا ہے، کسی سیاسی جماعت یا گروہ کو شاہراہ دستور پر دوبارہ قبضہ کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، وزیراعظم محمد نواز شریف نے وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کو شہر میں امن و امان قائم کرنے کے لئے پورے اختیارات استعمال کرنے کی اجازت دے دی۔ حکومت نے ’’مارو مر جائو اور گھیرائو جلائو ‘‘ کی دھمکی کا سختی سے نوٹس لیا ہے اور فیصلہ کیا ہے کہ قانون شکنوں سے آہنی ہاتھ سے نمٹا جائے گا۔ یہ فیصلہ اعلیٰ سطح کے مشاورتی اجلاس میں کیا گیا جو وزیراعظم نوازشریف کی صدارت میں وزیراعظم ہائوس میں منعقد ہوا جس میں وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان، وزیر خزانہ اسحاق ڈار، وزیر اطلاعات پرویز رشید ، وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق، وزیر پانی و بجلی خواجہ محمد آصف نے شرکت کی۔ اجلاس میں وفاقی وزیر داخلہ نے 30 نومبر کو منعقد ہونے والے جلسہ اور بعض رہنمائوں کی جانب سے دئیے جانے والے بیانات کے بارے میں بریفنگ دی۔ وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ کسی سیاسی جماعت کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور اگر کسی نے قانون ہاتھ میں لیا تو قانون حرکت میں آئے گا۔ انہوں نے مشاورتی اجلاس کے شرکاء کو اسلام آباد کے سکیورٹی پلان سے آگاہ کیا اور بتایا کہ اسلام آباد کی سکیورٹی کے لئے رینجرز، ایف سی اور پولیس کی بھاری نفری طلب کر لی ہے اجلاس میں چیف الیکشن کمشنر کی تقرری پر اپوزیشن لیڈر سے مشاورت کا عمل تیز تر کرنے کا فیصلہ کیا گیا اجلاس میں انتخابی اصلاحات پر پارلیمانی کمیٹی کے کام کے بارے میں آگاہ کیا گیا اور فیصلہ کیا گیا کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار، قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ سے جلد رابطہ قائم کریں گے۔ ان کی وطن واپسی سے قبل ان سے ٹیلی فون پر مشاورت کی جائے گی اور سپریم کورٹ کی 24 نومبر کی ڈیڈ لائن سے قبل چیف الیکشن کمشنر کے نام پر اتفاق رائے کر لیا جائے گا۔ وزیراعظم محمد نواز شریف نے وزیر خزانہ کو پارلیمانی کمیٹی کے کام کو جلد مکمل کرنے کی ہدایت کی وزیر خزانہ نے بتایا کہ بدھ کو پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس بلایا ہے اور وفاقی وزیر زاہد حامد کی سربراہی میں سب کمیٹی نے بیشتر کام مکمل کر لیا ہے۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم کی زیرصدارت مشاورتی اجلاس میں تحریک انصاف کے 30 نومبر کے جلسہ کو ریڈ زون سے باہر رکھنے کی تجویز پر غور کیا گیا۔ ریڈ زون میں احتجاج پر پابندی لگانے کیلئے قانون سازی اور عمران خان سمیت کسی لیڈر کو گرفتار نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ دریں اثناء وزیراعظم نواز شریف سے جمیعت علماء اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمان نے ملاقات کی اور ملک کی سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔ فضل الرحمنٰ نے افغان صدر اشرف غنی کے دورہ پاکستان اور آئی ڈی پیز کے حوالے سے بات چیت کی انہوں نے وزیراعظم کو آئی ڈی پیز کے مسائل کے بارے میں 5 جماعتی جرگہ کے فیصلوں سے آگاہ کیا۔ فضل الرحمن نے وزیراعظم سے 30 نومبر 2014 ء کے تحریک انصاف کے جلسہ پر بھی بات چیت کی اور وزیراعظم سے خیبر پی کے حکومت کی کارکردگی پر بھی تبادلہ خیال کیا اور کہا کہ تحریک انصاف کی حکومت کسی وقت بھی گر سکتی ہے تاہم وزیراعظم نے اس بارے میں کوئی اقدام اٹھانے سے روک دیا اور کہا کہ ہمیں خیبر پی کے حکومت کو کارکردگی کا موقع دینا چاہئے۔ آن لائن کے مطابق تحریک انصاف کو 30نومبر کو اسلام آباد میں جلسے کے پُرامن انعقاد کی اجازت دینے کا اصولی فیصلہ کر لیا گیا تاہم مظاہرین کو ریڈزون میں داخلے کی اجازت دینے یا نہ دینے پر مزید مشاورت کی جائے گی۔ وزیراعظم آئندہ چند روز میں قوم سے خطاب کریں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ پُرامن احتجاج تحریک انصاف کا حق ہے حکومت اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالے گی تاہم کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی ہر گز اجازت نہیں دی جائے گی۔ انہوں نے ہدایت کی کہ تحریک انصاف کے جلسے کے موقع پر ریڈ زون میں واقع اہم عمارتوں اور ڈپلومیٹک انکلیو کی سکیورٹی کو یقینی بنایا جائے۔ اجلاس میں انتخابی اصلاحات اور چیف الیکشن کمشنر کے تقرر سے متعلق بھی مشاورت کی گئی اور فیصلہ کیا گیا کہ چیف الیکشن کمشنر کی تقرری سے متعلق اپوزیشن سے مشاورتی عمل تیز کیا جائے گا۔ وزیراعظم نے شرکا کو چین برطانیہ اور جرمنی کے دوروں اور افغان صدر سے بات چیت سے متعلق بریفنگ بھی دی۔ وفاقی وزیر عبد القادر بلوچ نے اجلاس کو آئی ڈی پیز سے متعلق بریفنگ دی۔ وزیراعظم نے کہا کہ آئی ڈی پیز کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کریں گے‘ اس معاملے پر جرگہ بلانا احسن اقدام ہے۔ فضل الرحمن نے آئی ڈی پیز کے مسائل کو وزیراعظم کے سامنے اٹھایا۔ ذرائع نے بتایا کہ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ سرد موسم کی آمد آمد ہے اور پہلے ہی متاثرین نے سخت گرم موسم کی سختیاں برداشت کی ہیں اور اب سرد موسم بھی انہیں کھلے آسمان تلے ہی رہنا پڑے گا اس سلسلے میں صوبائی حکومت کی غیرسنجیدگی واضح ہے۔ وفاقی حکومت اس سلسلے میں کردار ادا کرے۔ حکومت ان علاقوں میں بھی آئی ڈی پیز کو واپس بھجوائے جو علاقے آپریشن کے بعد کلیئر ہوچکے ہیں جبکہ ان کی آبادکاری کیلئے حکومت اقدامات اٹھائے۔ ذرائع نے مزید بتایا کہ اس سلسلے میں وزیراعظم نواز شریف نے مولانا فضل الرحمن کو یقین دلایا کہ حکومت آئی ڈی پیز کے مسائل کے حل کیلئے اپنا کردار ادا کرے گی اور جو بھی ممکن ہوسکا کیا جائیگا۔ نجی ٹی وی کے مطابق اجلاس میں تحریک انصاف کو 30نومبر کو ریڈ زون میں داخلے کی اجازت نہ دینے کی تجویز دی گئی۔ نجی ٹی وی کے مطابق دھرنے کو بھی ریڈ زون سے باہر نکالنے کے آپشن پر بھی غور کیا گیا۔ وزیراعظم 25نومبر کو نیپال جا رہے ہیں اور ان کا قوم سے خطاب 23یا 24نومبر کو ہو گا۔ خطاب میں وزیراعظم دھرنے اور احتجاج کے باعث ملکی معیشت کو نقصان اور حکومتی اقدامات پر قوم کو اعتماد میں لیں گے اور توانائی کے حل کیلئے حکومتی اقدامات پر بتائیں گے۔ ریڈ زون میں احتجاج پر پابندی لگانے کیلئے آرڈیننس بھی جاری کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اجلاس میں شریک اکثریتی ارکان نے زور دیا کہ حکومت کو پہلے والی غلطی نہیں دہرانی چاہئے اور تحریک انصاف کو 30نومبر کو ریڈ زون میں داخل نہیں ہونے دینا چاہئے جبکہ ڈی چوک دھرنا بھی ریڈ زون میں ہے جسے باہر منتقل کیا جائے تاہم حتمی فیصلے کا اختیار وزیراعظم کو دیا گیا ہے۔ بی بی سی کے مطابق انتظامیہ نے پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے 30 نومبر کو احتجاج کی کال کے پیش نظر شہر میں کیے جانے والے حفاظتی اقدامات کو قانونی تحفظ دینے کے لیے آرڈیننس جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس ضمن میں اس آرڈیننس کا مسودہ وزارت داخلہ اور وزارت قانون کو بھجوا دیا ہے جہاں سے منظوری کے بعد چیف کمشنر نوٹیفکیشن جاری کریں گے۔ متعقلہ وزارتوں کو بھیجیگئے اس آرڈیننس کے مسودے میں کہا گیا ہے کہ ریڈ زون کو ہائی سکیورٹی زون قرار دیا گیا ہے جہاں پر پانچ افراد کو اکٹھا ہونے کی اجازت نہیں ہے اور زون میں داخلے کا اختیار وہاں پر تعینات قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو ہو گا۔ ہائی سکیورٹی زون میں شاہراہ دستور میں واقع اہم عمارتیں شامل ہیں جن میں پارلیمنٹ ہاؤس، ایوان صدر، وزیر اعظم سیکریٹریٹ اور وزیر اعظم ہاؤس کے ساتھ ساتھ ڈپلیومیٹک انکلیو، سپریم کورٹ، پی ٹی وی، کوہسار کمپلکس میں واقع آئی ایس آئی کے اہلکاروں کی رہائش گاہوں، ججز کالونی کے علاوہ بلوچستان ہاؤس، پنجاب ہاؤس، سندھ ہاؤس اور خیبر پختون خوا ہاؤس شامل ہیں۔ اس مسودے میں کہا گیا ہے کہ اس زون میں واقع سرکاری دفاتر میں کام کرنے والے ملازمین کے علاوہ غیر متعقلہ افراد کو داخلے کی اجازت پولیس کا گریڈ 17 کا افسر ہی دے گا اور بغیر اجازت داخل ہونے والے شخص کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔ اس مسودے میں کہا گیا ہے کہ متعقلہ پولیس افسران کی اجازت کے بغیر اس علاقے میں داخل ہونے والے شخص کو چھ ماہ قید اور دس ہزار روپے جْرمانے تک کی سزا ہو سکتی ہے۔ اس مسودے اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ کسی شخص کو بھی ہائی سکیورٹی زون میں کسی بھی قسم کا مظاہرہ کرنے کی اجازت نہیں ہوگی اور کوئی بھی شخص اسلحہ تو دور کی بات ڈنڈا لے کر بھی ہائی سکیورٹی زون میں داخل نہیں ہو سکے گا۔ خلاف ورزی کا مرتکب پائے جانے والے شخص کو تین سال تک قید اور 50 ہزار روپے تک جرمانے کی سزا ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ کوئی بھی شخص اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے خواتین اور بچوں کو ڈھال کے طور پر استعمال نہیں کرے گا۔ اس مسودے میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ ہائی سکیورٹی زون میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے علاوہ کسی بھی فرد یا جماعت کو ناکے لگا کر لوگوں اور گاڑیوں کو چیک کرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ اس مسودے میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ یہ آرڈیننس صرف اسلام آباد کی حدود میں ہی نافذ العمل ہو گا اور اس پر عمل درآمد کے لیے وفاقی حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے کئے جانے والے اقدامات کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکے گا۔ دریں اثناء وزیر اطلاعات پرویز رشید نے کہا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے 30 نومبر کے لئے مکمل طور پر تیار ہیں، کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ جلاؤ گھیراؤ اور مار کٹائی کی دھمکی دینے والوں کو روکا جائے گا۔ ایسے تمام لوگوں پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کڑی نگاہ ہے۔ شرپسندوں کو قانون اپنی گرفت میں لے گا۔ شرپسندوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹیں گے۔
پرویز رشید