جہلم جلسہ ، تحریک انصاف کے دیہی ووٹ میں اضافہ ہو گا
کریم جاویدبٹ
16نومبر کو عمران خان کی جہلم آمد سے کچھ دیر قبل پی ٹی آئی کی ریلی پر فائرنگ کا ناخوشگوار واقعہ پیش آیا پی ٹی آئی کی ریلی جلسہ میں شرکت کیلئے ضمیر جعفری سٹیڈیم آ رہی تھی کہ راستے میں چند افراد کی طرف سے کی گئی فائرنگ کے نتیجہ میں ان کے 8کارکن زخمی ہو گئے، زخمیوں کو ہسپتال منتقل کیاگیا ،اسی دوران پی ٹی آئی پنجاب کے صدر اعجاز چوہدری اور یاسمین ارشد ڈی ایچ کیو ہسپتال زخمیوں کی عیادت کیلئے پہنچ گئے،دونوں پی ٹی آئی رہنمائوں نے مقامی قیادت کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کو واقعہ کا ذمہ دار ٹھہرا تے ہوئے جلسہ کو ناکام بنانے کی سازش قرار دیا۔ دوسری جانب مسلم لیگ ن کے سابق ایم پی اے نے چوہدری ندیم خادم نے اپنے موقف میں کہا کہ پی ٹی آئی کے چند شرپسند عناصر نے ان کے گھر پر حملہ کیا تھا جبکہ ہماری طرف سے کوئی کاروائی نہیں کی گئی۔الیکٹرانک میڈیا پر یہ خبر برق رفتاری سے منظر عام پر آنے لگی جس کے نتیجہ میں وزیر اعلیٰ پنجاب نے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے تحقیقات کا حکم دے دیا ، جہلم پولیس نے اس واقعہ کے بعد ابتدائی طور پر3ملزمان کو گرفتار کر لیا، اگلے روز مسلم لیگ ن کے رہنمائوں چوہدری ندیم خادم اور ان کے کزن چوہدری راشد کے خلاف جہلم کے تھانہ صدر میںزیردفعہ پی پی سی 324/34 مقدمہ نمبر 537 درج کر لیا گیا تاہم ان دونوں نے عبوری ضمانتیں کرا لیں اور اپنے خلاف مقدمے کو جھوٹ پر مبنی قرار دیتے ہوئے کہا کہہم ہر قسم کی انکوائری کے لئے تیار ہیں ،انکوائری میں ہماری بے گناہی ثابت ہوجائے گی اور اصل حقائق سب کے سامنے آجائیں گے۔پی ٹی آئی کے مقامی قائدین اور کارکنان میں اس واقعہ کے بعدغم و غصہ کی لہر میں اضافہ دکھائی دیااور ان کی جانب سے مطالبہ سامنے آیا کہ اصل ملزمان کو گرفتار کر کے کیفر کردار تک پہنچایا جائے ،جبکہ پی ٹی آئی کے کارکنوں پر فائرنگ کے حوالے سے ڈسٹرکٹ بار جہلم کے وکلاء نے وفد کی شکل میںڈی پی او جہلم سرفراز خان ورک سے ملاقات کی ،پنجاب بار کونسل کے ممبر راجہ شکیل ایڈووکیٹ ،جنرل سیکرٹری بار چوہدری زاہد آف مونن ایڈووکیٹ ،کرنل انور خان آفریدی ایڈووکیٹ،نوید امتیازچوہدری اور دیگر 30 وکلاء نے ڈی پی اوجہلم سرفراز خان ورک کو تحریری درخواست دی اور کہا کہ جہلم میں مسلم لیگیوں کی طرف سے پی ٹی آئی کارکنان پر فائرنگ اور دہشت پھیلانے کا واقعہ ناقابل برداشت ہے، ملزمان کے خلاف فوری قانونی کاروائی عمل میں لاکر انہیں کیفر کردار تک پہنچایا جائے،ڈی پی او جہلم سرفراز خان ورک نے وکلاء کو یقین دہانی کرائی کہ ملزمان کے خلاف قانون کے مطابق کاروائی کی جائے گی۔۔۔یہ وہ حالات و واقعات تھے جو عمران خان کی جہلم آمد اور پی ٹی آئی کے جلسہ کے نتیجہ میں رونما ہوئے۔
بہر حال پی ٹی آئی کا جلسہ مقررہ وقت پر ہوا 40سے 45ہزار افراد شریک ہوئے ،نوجوانوں ،بچوں اور خواتین کی جلسہ میںشرکت کے لحاظ سے اسے منفرد کہا جا سکتا ہے کیونکہ اس سے قبل جہلم کے سیاسی جلسوں میں خواتین اور فیملز کی شرکت کا تصور موجود نہ تھا۔عمران خان نے روایتی انداز میں خطاب کیا ، حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا،جہلم کے واقعے کی مذمت کی ،متوالوں کو30 نومبر کو اسلام آباد آنے کی دعوت دی اورجلسہ کے بعد زخمیوں کی عیادت کی اور واپس روانہ ہو گئے۔
تحریک انصاف کی ریلی پر فائرنگ کے واقعہ کے باوجود پی ٹی آئی کے طے شدہ پروگرام کے مطابق جلسہ تو ہو گیا لیکن اس جلسہ کے جہلم کی سیاست پر کیا اثرات مرتب ہو ں گے، آئیے اس کا جائزہ لیتے ہیں۔مسلم لیگ ن کی مقامی قیادت کو پی ٹی آئی کی مقامی قیادت سے تو شاید خاص تحفظات نہ ہوں تاہم قومی سطح پرپی ٹی آئی کی مسلم لیگ ن سے ٹکر کے باعث عمران خان ذاتی طور پرملک بھر میں مقامی سطحوں پر بھی اثر انداز ہورہے ہیں،عوام کی ایک مخصوص تعداد عمران خان کو محض دیکھنے کی غرض سے پی ٹی آئی کے جلسوں میں شریک ہوتی ہے اور یہی صورتحال جہلم میں بھی رہی۔جلسہ میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد کیا تھی؟ اور کتنے ضلع جہلم سے تعلق رکھنے والے مقامی افراد تھے اور کتنے غیر مقامی؟ 18سال سے کم عمر افراد کتنے تھے اور کتنے اس سے زیادہ۔ اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے ،جلسے کے حجم سے رجسٹرڈ ووٹرز کا حقیقی تخمینہ نہیں لگایا جا سکتا کہ وثوق سے کہا جا سکے کہ آئندہ انتخابات میں پی ٹی آئی کلین سویپ کرئے گی ، بہر حال جہلم میںاس جلسہ کو عوامی قوت کا تائیدی مظاہرہ کہنا غلط نہ ہو گا ۔
2013کے انتخابات میںجہلم میں پی ٹی آئی نے پہلی بار انتخابی عمل میں حصہ لیااور مسلم لیگ ن کو شکست دینے کی بھر پور کوشش کی تاہم وہ کامیاب نہ ہو سکی ،اتنا ضرور ہوا کہ پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ ق کی بجائے تحریک انصاف دوسرے نمبر پر آتے ہوئے مسلم لیگ ن کی حریف بن کر ابھری۔ تحریک انصاف2013کے انتخابات میں شکست کے بعد جہلم میں جماعت کو مزید پروان چڑھانے کیلئے تگ و دو میں مصروف رہی تاہم ضلعی قیادت کے فقدان کے باعث حقیقی معنوں میں مستحکم نہ کر سکی،جہلم کی سیاست کے اعتبار سے 16نومبر کے جلسہ کوجہلم میںجماعت کو مزید پروان چڑھانے کی کوشش کہا جا سکتا ہے کیونکہ ضلع جہلم میں تحریک انصاف 2013میں ہی منظر عام پر آئی اور انتخابات میںمسلم لیگ ن کے مقابلے میں تحریک انصاف کے امیدوار نئے اور نسبتاً کمزور تھے اس لیے مقامی قیادت کا استحکام عمران خان کی جہلم آمد کی بدولت ہی ممکن ہو سکتا تھا۔ اس جلسے کے تناظر اور پی ٹی آئی ریلی فائرنگ کے واقعہ کی روشنی میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ مسلم لیگ ن آئندہ انتخابات میںکمزور ہو جا ئے گی ،ریلی پر فائرنگ جیساواقعہ اگر عام دنوں میں وقوع پذیر ہوتا تو شاید اس کی کوئی اہمیت نہ ہوتی چونکہ عمران خان کی جہلم آمد عین اسی روز تھی اس کے باعث یہ واقعہ کسی حد تک اہمیت اختیار کر گیا ،بہر حال ریلی فائرنگ واقعہ اور جلسہ کے تناظر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ شہری حدود میں اعلانیہ جبکہ دیہی علاقوں میں تحریک انصاف کے خاموش ووٹ بنک میں بتدریج اضافہ ہو سکتا ہے۔