بھٹو خاندان کے گڑھ میں جلسہ تحریک انصاف کی جارحانہ سیاسی حکمت عملی ہے: بی بی سی
کراچی (نیٹ نیوز) بی بی سی کے مطابق اندرونِ سندھ عمران خان کے لیے نیا نہیں۔ جب وہ سیاست میں نہیں تھے تب بھی وہ یہاں موسمِ خزاں و سرما میں پرندوں کا شکار کھیلنے آتے تھے۔ مگر اس بار سیاسی شکار کا موسم ہے۔ رپورٹ کے مطابق اسلام آباد میں دھرنا شروع ہونے کے بعد سے بالعموم اور بلاول بھٹو زرداری کے کراچی جلسے کے بعد سے بالخصوص پیپلز پارٹی اور تحریکِ انصاف کے درمیان جاری الزامات کے میچ کے تناظر میں بھٹو خاندان کے روایتی گڑھ لاڑکانہ میں اجتماع کرنے کا فیصلہ سندھ میں تحریکِ انصاف کی جارحانہ سیاسی حکمتِ عملی کا غماز ہے۔ اب تک کا ریکارڈ دیکھتے ہوئے اکثر مبصرین کہتے ہیں کہ عددی اعتبار سے یہ جلسہ کامیاب رہے گا۔ سندھی تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ اگر اس جلسے کے نتیجے میں تحریکِ انصاف سندھ کے ان طبقات کی توجہ حاصل کرنا شروع کرتی ہے جو نہ قوم پرستوں سے راضی ہیں اور نہ ہی پیپلز پارٹی کی جمود زدہ حکمرانی سے خوش، تو یہ بھی تحریکِ انصاف کی اہم کامیابی تصور کی جائے گی۔ تحریکِ انصاف کو اندرونِ سندھ شاہ محمود قریشی کی غوثیہ جماعت کے علاوہ بھی اپنا حمایتی دائرہ وسیع کرنے کی شدید خواہش ہے۔ اگر تحریکِ انصاف میں روایتی ’الیکٹ ایبل‘ شخصیات کو شامل کرنے کے مقابلے کے بجائے مڈل کلاس سے قیادت ابھارنے پر دھیان دیا گیا تو شہری اور دیہی علاقوں میں تازہ اور مثبت پیغام پھیل سکتا ہے۔ ایک اور مبصر کے بقول تحریکِ انصاف کی جانب سے سندھ کو مزید صوبوں میں تقسیم کرنے کی مخالفت اور عام سندھی کی سیاسی و اقتصادی مظلومیت کا نکتہ ابھارنے کی کوشش دانش مندانہ سیاسی قدم ہے اور اگر یہ سیاسی لائن برقرار رہتی ہے تو اس کا فائدہ تحریکِ انصاف کو ہی ہو گا۔ ایک تجزیہ کار کے مطابق نواز شریف نے اندرونِ سندھ اپنی جڑیں بنانے کے لیے بہت سے تجربات کیے لیکن چونکہ وہ سندھ کی سیاسی سوچ کو پوری طرح نہ سمجھ سکے لہذا اس تاثر کو بھی کم نہ کر سکے کہ ان کے سیاسی و اقتصادی ایجنڈے میں پنجاب اولیت پر ہے۔ ان کے مطابق 25 برس بعد بھی نواز شریف کو سندھ میں تنظیمی بحران درپیش ہے اور تیسری بار وزیرِ اعظم بننے کے بعد تو انہوں نے عملاً سندھ کو پیپلز پارٹی کا حلقہ اثر سمجھ کر صبر کر لیا ہے۔ اگر عمران خان اس کے برعکس تاثر قائم کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو اندرونِ سندھ تنظیم سازی کے لیے انہیں اہل افرادی قوت مل سکتی ہے۔ ایک تجزیہ کار کے مطابق اندرونِ سندھ میں چونکہ نواز شریف کی جماعت کا کوئی خاص وجود نہیں اس لیے محض گو نواز گو کا نعرہ عام آدمی کو متاثر نہیں کر سکتا۔ عمران خان سے ایک سندھی جاننا چاہے گا کہ کالا باغ ڈیم، سندھ کے وسائل کی تقسیم اور منصفانہ استعمال، دیہی اور شہری علاقوں میں سماجی و اقتصادی فرق اور مقامی کرپشن جیسے بنیادی مسائل کے بارے میں عمران خان کا موقف اور عزم کیا ہے۔ یہ کمٹمنٹ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم سے کتنی الگ، تازہ اور واضح ہے۔ بصورتِ دیگر لاڑکانہ جلسہ بھی شغل میلے سے بھرپور ایک اور سیاسی سرگرمی کے طور پر ہی لوگوں کے حافظے میں کچھ عرصے تک رہے گا۔