• news

سرگودھا ہسپتال میں تھر جیسے حالات؟

ایم کیو ایم کا وفد سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف پیر پگارا سے ملا تو انہوں نے کہا کہ حالات اگر ایسے ہی رہے، حکومتیں غیرذمہ دارانہ رویہ اپنائے رہیں تو سارے پاکستان کے تھر بن جانے کا خطرہ ہے۔ اس بات کی بازگشت سرگودھا میں ایک بڑے ہسپتال ڈی ایچ کیو ہسپتال میں سنائی دی۔ جہاں آٹھ نومولود اور معصوم بچے آکسیجن نہ ملنے اور ڈاکٹروں کی مبینہ غفلت کی وجہ سے جاں بحق ہو گئے۔ ایم ایس ڈاکٹر اقبال سمیع نے برملا کہا کہ ہسپتال میں آکسیجن اور طبی سہولیات کی کوئی کمی نہیں ہے۔ یہ تو اس بات کی تائید ہے کہ تھر میں ہسپتال کے لئے وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے کہا کہ تھر میں بچوں کا ہسپتال کراچی کے کسی بھی سرکاری ہسپتال سے بہتر ہے۔ واقعی بہتر ہو گا کہ کراچی میں بھی سرکاری ہسپتالوں کی حالت زار بہت بدتر ہے۔ اور وہ زندگی بخش اداروں کی بجائے موت بانٹنے والے ادارے بن چکے ہیں۔ اس کے باوجود شہروں میں صورتحال خراب ہونے کے باوجود اتنی خراب نہیں ہے۔ مگر ہم لاہور کراچی اسلام آباد کے علاوہ کسی کو بڑا شہر سمجھتے ہی نہیں۔ ڈاکٹر اقبال سمیع حامد حمید اور دوسرے سرگودھا کے لوگ تو قائم علی شاہ اور شرجیل میمن سے بھی آگے بڑھ گئے ہیں وہ کہتے ہیں پاکستان میں ہر روز چھ سو بچے مرتے ہیں تھر میں چھ بچے مر گئے تو کیا قیامت آ گئی ہے۔ سرگودھا شاہینوں کا شہر ہے مگر جو بچے پرواز کی آواز بھی نہیں سن سکے ان کا ماتم کون کرے گا۔ ایم ایس ڈاکٹر اقبال سمیع بچوں کی ظالمانہ موت کو ایک حادثہ کہہ رہے ہیں، ورنہ ہسپتال میں سب کچھ ہے۔ سب کچھ ہے تو وہ کس کے لئے خرچ ہوتا ہے۔ دوائیں کہاں بکتی ہیں اور کرپشن کتنے عروج پر ہے۔ ڈاکٹر اقبال سمیع نے بڑے زور سے تصدیق کی ہے کہ آٹھ بچے مر گئے ہیں۔ جیسے یہ کوئی خبر ہی نہیں مگر وہ کہنا چاہتے ہوں گے کہ یہاں کسی امیر کا بچہ کبھی نہیں مرا۔ صرف غریب کے بچے کبھی کبھی مر جاتے ہیں۔ ڈاکٹر بھی ان کی پرواہ نہیں کرتے۔ نرسیں بھی خیال نہیں کرتیں۔ بچوں کے والدین اور رشتہ دار منتیں کرتے رہ جاتے ہیں۔ بچوں کی معصومیت کا واسطہبھی دیتے ہیں مگر اس دوران ڈاکٹر صاحب اور نرس صاحبہ کے موبائل فون کی گھنٹی بج اٹھتی ہے۔ پھر بیمار اس قدر ہوتے ہیں کہ وہ بھی کیا کریں۔ 25 بچوں کی گنجائش والے آئی سی یو میں 56 بچے بڑے ہوتے ہیں۔ سندھ خیر پور ہسپتال میں اتنے لوگ حادثے میں نہ مرے تھے جتنے ہسپتال میں مر گئے۔ ایک زخمی نے مرتے ہوئے کہا اب خیرپور کا نام شر پور رکھ دیں۔
ڈاکٹر اقبال سمیع اور ڈی ایچ او سرگودھا نے کہا ہے کہ طبی سہولتیں ہسپتال میں بہت موجود ہیں مگر سرگودھا کے ایم این اے حامد حمید کہتے ہیں کہ بچوں کی اموات طبی سہولتوں کی کمی کی وجہ سے ہوئی ہے۔ اس سے وہ ہسپتال انتظامیہ کو بچانا چاہتے ہیں کہ وہ ان کے سرپرست ہیں۔ ہر قسم کی کرپشن اور غفلت کے لئے وہ ان کا تحفظ کرتے ہیں۔ یا وہ پنجاب حکومت کو بدنام کرنا چاہتے ہیں کہ ہسپتال میں حکومت طبی سہولتوں کے لئے اہتمام بھی نہیں کرتی۔ جب کوئی واقعہ ہوتا ہے تو ایم ایس اور چند ڈاکٹروں کو معطل کر دیا جاتا ہے۔ یہ بات ایم این اے حامد حمید کے ایک نجی ٹی وی چینل پر کی ہے اور صرف ایک اخبار میں یہ خبر لگی ہے۔ حامد حمید کے لئے شہر کے کئی دوسرے محکموں کی طرف سے بھی شکایات موصول ہوتی رہتی ہیں کہ وہ بے جا مداخلت کرتے ہیں۔ اس سے شہر بھر میں بے چینی پائی جاتی ہے۔ اس طرح بدنامی مسلم لیگ ن کی ہوتی ہے اور پنجاب حکومت کے لئے ایک بیزاری لوگوں میں پھیلتی ہے۔ اس کے بعد صحافی واصف ناگی کو بھی موقع مل گیا۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت کی ترجیحات میں صحت کا کہیں ذکر نہیں ہے۔ تین سال میں چار سیکرٹری صحت تبدیل ہو چکے ہیں۔ غریب کے بچے کے لئے کہا جاتا ہے کہ حادثہ ہوا ہے۔ امیر کے بچے کے لئے کبھی حادثہ نہیں ہوتا۔ سیکرٹری صحت نے اس پروگرام میں کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب کی تحقیقاتی ٹیم جا رہی ہے۔ اس کے نتائج کے مطابق کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ شہباز شریف اس طرح کے ہر معاملے کا نوٹس لیتے ہیں۔ خود بھی موقع پر پہنچتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ مظلوموں کی داد رسی ہو۔ مگر ظالم پھر بھی بچ جاتے ہیں۔ اس کے لئے خادم پنجاب کو خصوصی توجہ فرمانا پڑے گی۔ میرے خیال میں ایم این اے حامد حمید ایک غیرذمہ دارانہ بات نہ کرتے تو پنجاب حکومت پر اس طرح تنقید نہ ہوتی۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے خاص طور پر مشیر صحت سلمان رفیق کو سرگودھا ہسپتال میں بھیجا۔ انہوں نے بہت ہمدردی سے دیکھا۔ سلمان رفیق ایک دردمند آدمی ہیں۔ سلجھے ہوئے نفیس آدمی ہیں۔ وہ معاملات کو دل سے دیکھتے ہیں اور حتی الامکان نقصان کے ازالے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان سے گزارش کہ سرگودھا ہسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر اقبال سمیع کی لاپروائی غفلت اور دوسرے ڈاکٹروں کی نااہلی کے لئے پنجاب حکومت کو مطلعکریں اور ان لوگوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ اس کے ساتھ ایم این اے حامد حمید کے لئے اس ہسپتال کی سرپرتی اور بے جا مداخلت کرپشن وغیرہ کا بغور جائزہ لیں تاکہ غریب لوگوں کو کچھ آسودگی ملے اس طرح شہباز شریف کی کارکردگی کے لئے لوگوں کو اطمینان ہو گا اور مسلم لیگ حکومت کے لئے جذبات اچھے ہوں گے۔ ڈاکٹر سمیع ایم ایس ہوتے ہوئے صرف حامد حمید کی آشیر باد سے پرائیویٹ پریکٹس بھی کرتے ہیں۔
یہ ظلم جو سرکاری ممبران اسمبلی کرتے ہیں یہ کسی طور مناسب نہیں ہے۔ سرگودھا یونیورسٹی والے بھی ممبران اسمبلی کی بے جا مداخلت سے تنگ ہیں اور وہاں جو شاندار ترقی ہو رہی ہے اور تعلیمی فروغ کے کمالات ہو رہے ہیں ڈسٹرب کر دیے گئے ہیں۔ سرگودھا یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر محمد اکرم چودھری بہت بڑے ماہر تعلیم ہیں اور سرگودھا کے لئے بہت بڑی نعمت سے کم نہیں ہیں۔ ان کا ادب و احترام لازم ہے۔ مجھ تک تو صرف حامد حمید کا نام پہنچا ہے۔ مگر میں ان سے کیا گذارش کروں کہ وہ اس طرف توجہ دیں جس نے ایک ہسپتال کو سارے پاکستان میں بدنام کرا دیا ہے۔ وہ یونیورسٹی کے ساتھ کیا کرے گا؟ اللہ رحم کرے۔ شہباز شریف نے ممبران اسمبلی کے لئے جو سخت گیر رویہ اختیار کیا ہے۔ وہ بالکل مناسب ہے۔ نواز شریف نوازشوں میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ انہوں نے حامد حمید کو کشمیر کمیٹی کے لئے کچھ نہ کچھ بنا دیا ہے۔ انہیں یہ بھی بتا دیں کہ کشمیر میں کتنی بھارتی فوجیں بیٹھی ہوئی ہیں؟
کسی من چلے نے کہا کہ نواز شریف سے ایک ایسا فنڈ بنوایا جائے جس کا نام ’’لوٹ مار فنڈ‘‘ ہو اور وہ ممبران اسمبلی کے لئے مخصوص ہو۔

ای پیپر-دی نیشن