• news

غداری کیس ہر صورت انجام کو پہنچنا چاہئیے

سابق فوجی صدرپرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کے مقدمے کی سماعت کرنیوالی خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کی طرف سے تین نومبر 2007 میں ملک میں ایمرجنسی لگانے سے متعلق اس وقت کی وفاقی حکومت اور اعلیٰ عسکری اور سول قیادت کو شریک جرم کرنے سے متعلق درخواست کو جزوی طور پر منظور کر لیا ہے۔خصوصی عدالت کے سربراہ جسٹس فیصل عرب نے اپنے فیصلے میں ا±س وقت کے وزیر اعظم شوکت عزیز، وفاقی وزیر قانون زاہد حامد اور سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کو بھی مقدمے میں شامل کرنے کا حکم دیا ہے۔
پرویز مشرف سنگین غداری کیس پاکستان کی تاریخ کا اہم ترین کیس ہے جس کے فیصلے کے منفی و مثبت اثرات پاکستان کی مستقبل کی سیاست پر یقیناً مرتب ہونگے۔ فیصلے میںکتنا وقت لگتا ہے اس سے قطع نظر انصاف کے تقاضے پورے ہونے چاہئیں۔ مشرف کے وکلاءنے ایمرجنسی کے نفاذ کیلئے مشاورت اور معاونت میں شریک چھ سوسے زائد افراد کی لسٹ پیش کی تھی۔ جن میں اس وقت کے کور کمانڈرز، گورنرز، وفاقی وزراءاور اراکین اسمبلی بھی شامل تھے۔ ان افراد کی اکثریت نے کسی قسم کی مشاورت اور معاونت میں شریک ہونے کی تردید کی۔ ان میں وزیر اعظم شوکت عزیز بھی شامل ہیں۔ تاہم گورنر سندھ عشرت العباد نے اعتراف کیا۔ وزیر اعظم شوکت عزیز کی اُس وقت کی ایک ویڈیو میڈیا میں آئی جس میں وہ بھی اعتراف کرتے دکھائی دیئے۔ خصوصی عدالت کی طرف سے مذکورہ فیصلہ متفقہ نہیں ہے مسٹر جسٹس یاور علی نے اس سے اختلاف کیا ہے جبکہ عدالت نے اس وقت کے آرمی چیف جنرل کیانی اور کورکمانڈر راولپنڈی کو اس کیس میں فریق بنانے کی استدعا بھی مسترد کر دی ہے۔ قانونی ماہرین کی رائے میں ایمرجنسی کے نفاذ کا مشورہ دینے اور اس کے نفاذ میں معاونت کرنے والے بھی آرٹیکل 6 کی زد میں آتے ہیں۔ زاہدحامد مشرف دور میں وزیر قانون تھے آج وہ مسلم لےگ کی حکومت میں وزیر ہیں زاہد حامد نے اچھا کیا کہ خصوصی عدالت کے فیصلے کے بعد استعفی دیدیا۔اس پر وزیر خزانہ اسحاق ڈار کہتے ہیں کہ فیصلہ چونکہ متفقہ نہیںاس لئے وزیر اعظم نے ابھی قبول نہیں کیا،یہ بڑی بودی دلیل ہے۔ حکومت کو آئین اور قانون کا احترام اور فیصلے پر عمل کرنا چاہیے۔ جس نے بھی ایمرجنسی کے نفاذ میں معاونت کی یا مشورہ دیا اس کا احتساب ضرور ہونا چاہئیے۔ حکومت اس مقدمے کو منطقی انجام تک پہنچانے کی کوشش کرے۔ جو بھی دفعہ 6 کی زد میں آتا ہے اس کےخلاف بلا امتیاز کارروائی ہونی چاہئیے ٹرائل مصلحتوں کا شکار ہونا چاہیے نہ رُکنا چاہیے۔

ای پیپر-دی نیشن