قیام پاکستان کے حامی اور مخالف حلقے
پاکستان میں نوجوانوں کی اکثریت ہے۔ نوجوان پاکستان کی تیسری نسل سے تعلق رکھتے ہیں لہذا تحریک پاکستان سے آشنا نہیں ہیں۔ مستقبل کے معماروں کو تاریخ کا شعور ہونا چاہیئے۔ قیام پاکستان کے مخالفین کا اختلاف اصولی اور فکری نوعیت کا تھا لہذا اس ضمن میں ہمیں کسی تعصب کا شکار نہیں ہونا چاہیئے۔ تحریک پاکستان کے دوران جن جماعتوں نے قیام پاکستان کی مخالفت کی انکے بارے میں رائے انکے موجودہ کردار کے حوالے سے ہی قائم کرنی چاہیئے۔ اس کالم کا واحد مقصد نوجوان نسل کو اپنی تاریخ سے روشناس کرانا ہے۔ کانگرس تقسیم ہند کی سب سے بڑی جماعت تھی۔ کانگرس میں شامل مسلمان جن کی قیادت مولانا ابوالکلام آزاد کررہے تھے۔ مسلم لیگ کے سیاسی نظریے کے خلاف تھے اور متحدہ ہندوستانی نیشلزم کے حامی تھے۔ جمعیت العلمائے ہند کا بڑا حصہ جو مذہبی سکالروں پر مشتمل تھا قیام پاکستان کیخلاف تھا انکی سوچ یہ تھی کہ ہندوستان میں رہتے ہوئے مسلمانوں کے سیاسی اور معاشی مفادات کا دفاع کیا جائے۔ قیام پاکستان کے کٹڑ مخالف علماءمیں مفتی کفایت اللہ اور مولانا حسین احمد مدنی شامل تھے۔ جمعیت العلمائے ہند کے دو جریدوں مدینہ (بجنور) اور الجمعیت (دہلی) نے کانگرس کا مقدمہ لڑا۔ ایک مستند رپورٹ کےمطابق مولانا کفایت اللہ اور مولانا حسین احمد مدنی نے قائداعظم سے پاکستان کا مقدمہ لڑنے کیلئے چندہ طلب کیا اور قائداعظم کے انکار پر وہ کانگرس کے اتحادی بن گئے۔ مجلس احرار اسلامی نے عطاءاللہ شاہ بخاری اور چوہدری افضل حق کی قیادت میں مسلم لیگ کی مخالفت کی۔ مجلس احرار ہندوستان کی آزادی اور اسلامی نظام کے نفاذ کیلئے جدوجہد کررہی تھی اس نے کانگرس کا ساتھ دیا۔
خدائی خدمت گار (ریڈشرٹ) جو خان عبدالغفار خان خیبر پختونخواہ میں بااثر تھے اور مہاتما گاندھی سے متاثر تھے۔ قیام پاکستان کے سخت مخالف تھے۔ خان عبدالغفار خان کو ”سرحدی گاندھی“ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا تھا۔ خدائی خدمت گار تنظیم کا بنیادی سیاسی فلسفہ انسانیت کی خدمت اور عدم تشدد تھا۔ علامہ عنایت اللہ مشرقی کی سربراہی میں قائم کی گئی خاکسار تحریک بھی مسلم لیگ کی نظریاتی مخالف تھی۔ خاکسار اسلامی روایات کے احیاءکیلئے جدوجہد کرتے تھے۔ خاکسار تحریک کے ترجمان جریدے الاصلاح (لاہور) نے پنجاب میں مسلم لیگ کی ڈٹ کر مخالفت کی۔ جماعت اسلامی جس کے بانی مولانا ابوالاعلیٰ مودودی تھے دو قومی نظریے کے حامی تھے مگر مسلم لیگ کے مخالف تھے۔ ان کا خیال تھا کہ مسلم لیگ کی قیادت اسلامی ریاست قائم نہیں کرسکے گی۔ پنجاب میں یونی نیسٹ پارٹی جس پر ہندو اور مسلمان جاگیرداروں کی بالادستی تھی مسلم لیگ کی مخالف تھی۔ مسلم لیگ مسلمانوں کی واحد جماعت تھی جو قائداعظم کی ولولہ انگیز قیادت میں مخالفین کا ڈٹ کر مقابلہ کرتی رہی۔ علامہ اقبال مسلم لیگ کی فکری رہنمائی کرتے رہے۔ تحریک پاکستان کے دوران مسلم لیگ کے جن رہنماﺅں نے قائداعظم کا ساتھ دیا ان میں نواب زادہ لیاقت علی خان، نواب اسماعیل خان (یوپی)، افتخار حسین ممدوٹ، ممتاز دولتانہ، راجہ غضنفر علی خان (پنجاب)، حاجی عبداللہ ہارون، غلام حسین ہدایت اللہ، ایوب کھوڑو (سندھ)، قاضی محمد عیسیٰ، جعفر جمالی(بلوچستان)، سردار عبدالرب نشتر، خان عبدالقیوم خان، پیر آف مانکی شریف (خیبرپختونخواہ)، خواجہ ناظم الدین ، حسین شہید سہروردی، اکرم خان، مولوی تمیزالدین (مشرقی پاکستان) شامل تھے۔ آل انڈیا مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن، پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن آل انڈیا مسلم ویمن آرگنائزیشن نے مسلم لیگ کا پیغام بھارت کے کونے کونے میں پہنچایا۔
مسلم لیگ کی اتحادی جماعتوں جمعیت العلمائے اسلام (سربراہ مولانا شبیر احمد عثمانی)، جمعیت الحدیث (سربراہ مولانا ابراہیم سیالکوٹی، مولانا ثناءاللہ امر تسری) نے قیام پاکستان کیلئے قابل ستائش کردار ادا کیا۔ پیر جماعت علی شاہ علی پور سیداں کی قیادت میں پنجاب میں اور پیر صاحب مانکی شریف کی قیادت میں خیبر پختونخواہ میں علماءاور مشائخ نے تحریک پاکستان میں پرجوش حصہ لیا۔ کیمونسٹ پارٹی آف انڈیا اور جماعت احمدیہ نے قیام پاکستان کی حمایت کی۔ ڈان (دہلی) مارننگ نیوز کلکتہ، نوائے وقت (لاہور) ، دی ایسٹرن ٹائیمز(لاہور)، پاکستان ٹائیمز(لاہور) نے مسلم لیگ کے مقدس مشن کی تکمیل کیلئے شاندار کردار ادا کیا اور ہندو پریس کا مقابلہ کیا۔ جب قیام پاکستان کا اعلان ہوا تو روزنامہ نوائے وقت نے اپنے اداریے میں تحریر کیا کہ 1940ءمیں مسلم لیگ کو تضحیک کا نشانہ بنایا گیا۔ قائداعظم کی کردار کشی کی گئی۔ مسلم لیگی رہنماﺅں کو دھمکیاں دی گئیں اور پاکستان کے مطالبے کو ترک کرنے کیلئے دباﺅ ڈالا گیا۔ مسلم لیگ کے رہنماﺅں نے ان حربوں اور ہتھکنڈوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور پاکستان وجود میں آگیا۔
قیام پاکستان کے بعد قائداعظم پاکستان کے پہلے گورنر جنرل بنے انہوں نے لیاقت علی خان کے مشورے سے پہلی کابینہ نامزد کی جو صرف اور صرف میرٹ پر کی گئی۔ پاکستان کی پہلی کابینہ میں نامور سیاستدان اور ٹیکنو کریٹ شامل تھے۔ نواب زادہ لیاقت علی خان (وزیراعظم، دفاع، خارجہ تعلقات، دولت مشترکہ) آئی آئی چندریگر (تجارت، صنعت، ورکس) ، غلام محمد (خزانہ )، سردار عبدالرب نشتر(مواصلات)، غضنفر علی خان (خوراک، زراعت، صحت)، جوگندر ناتھ منڈل (قانون محنت)، فضل الرحمن (داخلہ، تعلیم، اطلاعات)، سرظفر اللہ خان(خارجہ امور)، خواجہ شہاب الدین (داخلہ)۔ پاکستان کی پہلی کابینہ مختصر تھی جس میں نیک نام، تجربہ کار اور اہل شخصیات کو شامل کیا گیا۔ کابینہ کے وزیر نظریاتی تھے ان کا مشن ایک جمہوری اور فلاحی ریاست کی تشکیل تھا۔ کابینہ نے متفقہ قرارداد منظور کرکے گورنر جنرل پاکستان کو اختیار دیا کہ وہ کابینہ کے فیصلوں کی حتمی منظوری دیں۔ قیام پاکستان کے بعد مخالف جماعتوں نے بھی دل سے پاکستان کو قبول کرلیا۔ 1973ءمیں وزیراعظم پاکستان بھٹو شہید کی قیادت میں 1973ءکے متفقہ آئین کی صورت میں عمرانی معاہدہ سامنے آیا جس پر پاکستان مخالف سیاسی و مذہبی جماعتوں کے رہنماﺅں نے دستخط کیے۔ 1973ءکا آئین ایک ایسی قومی دستاویز ہے جو وقفے وقفے سے آمرانہ ادوار کے باوجود آج بجا قومی یکجہتی کی ضامن ہے۔ قائداعظم نے نئی ریاست کو چلانے کیلئے چند بنیادی اصولوں پر زور دیا۔ انہوں نے 14 فروری 1948ءکو سبی بلوچستان میں سرکاری ملازمین کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا۔”آج ہم یہاں بڑے اور چھوٹے کے امتیاز کے بغیر مملکت کے خادموں کی حیثیت سے جمع ہوئے ہیں اور یہ غور کرنے کیلئے کہ اپنے عوام اور اپنے ملک کے مفادات کو کس طرح آگے بڑھایا جاسکتا ہے۔ اعلیٰ ترین سے ادنیٰ ترین تک ہم سب مملکت کے خادم ہیں۔ اب پاکستان ایک خودمختار مملکت ہے۔ مطلق اور بغیر کسی کی دخل اندازی کے اور پاکستان کی حکومت عوام کے ہاتھوں میں ہے۔ جب تک کہ ہم حتمی طور پر اپنا دستور مرتب نہ کرلیں اور یہ کام صرف مجلس دستور ساز پاکستان ہی سرانجام دے سکتی ہے۔ اُس وقت تک ہمارا موجودہ عبوری دستور افسر شاہی یا جبر یا آمریت پر نہیں بلکہ جمہوریت کے بنیادی اُصولوں پر اُستوار ہونا چاہیئے۔ آپ افسران کو محسوس کرنا چاہیئے کہ یہ اُصول ہیں جو ذہن نشین رہیں۔ آپ کو معلوم ہے کہ ہم نقطہ آغاز سے شروع کررہے ہیں۔ اگر آپ پاکستان کو قوموں کی برداری میں ایک عظیم ملک بنانا چاہتے ہیں تو آپ کو حتی الامکان آسائشوں کو فراموش کردینا ہوگا اور جو کام بھی آپ کو سونپا گیا ہے اس پر جس قدر آپ سے ہوسکے زیادہ سے زیادہ وقت اور محنت صرف کریں۔ دیانت اور خلوص سے کام کیجئے اور حکومت پاکستان کے حامی اور وفادار رہیے۔ میں آپ کو یقین دلاسکتا ہوں کہ اس دنیا میں کوئی شے آپکے اپنے ضمیر سے بڑھ کر نہیں اور جب آپ رب ذوالجلال کے حضور پیش ہوں تو آپ یہ کہہ سکیں کہ آپ نے اپنا فریضہ انتہائی احساس وفاداری، دیانت، راست بازی، لگن اور وفاشعاری کے ساتھ سرانجام دیا۔“ [قائداعظم: تقاریر و بیانات، بزم اقبال، لاہور جلد چہارم صفحہ 407] قائداعظم کے ان بنیادی اصولوں کی روشنی میں پاکستان کی ریاست کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ہمارا نظام حکومت قائداعظم کے نظریات اور تحریک پاکستان کی روح سے کھلا انحراف ہے۔ اس حوالے سے جماعت اسلامی کے سچے اور کھرے امیر سراج الحق نے نئی تحریک پاکستان شروع کرنے کا بیڑہ اُٹھایا ہے جس کا آغاز مینار پاکستان سے کیا گیا ہے ۔ ایک نئی قرارداد پاکستان منظور کرکے پاکستان کو ایک بار پھر اس کی اساسی بنیاد پر تشکیل دینے کا عزم کیا جائیگا۔