امریکی فوج اگلے برس بھی افغانستان میں براہ راست کارروائیاں کر سکے گی، اوباما نے حکم نامے پر دستخط کر دئیے
واشنگٹن (اے ایف پی+ نمائندہ خصوصی+ رائٹرز) صدر اوباما نے آئندہ سال افغانستان میں امریکی افواج کی کارروائیاں بڑھانے کے اختیار میں توسیع کے خفیہ منصوبے پر دستخط کردیئے۔ امریکی اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق امریکی صدر اوباما نے افغانستان میں امریکی افواج کے دائرہ اختیار میں توسیع کے منصوبے پر دستخط کر دیئے ہیںجس کے تحت امریکی فوجیوں کوافغانستان میں 2015ء میں براہ راست کارروائیوں کیلئے اختیارہوگا۔ نئے حکم کے مطابق امریکی لڑاکا طیارے،بمبار طیارے اور ڈرونز افغان افواج کے ساتھ طالبان اور شدت پسند وں کیخلاف لڑائی میں تعاون کریں گے۔رواں سال مئی کے مہینے میں امریکی صدر نے اعلان کیا تھا کہ آئندہ سال امریکی افواج کا افغانستان میں کوئی کردار نہیں ہوگا اور 2015ء میں افغانستان میں رہ جانیوالے 9800 امریکی فوجیو ں کی مصروفیت افغان افواج کو تربیت دینے اور القاعدہ کی باقیات کے خلاف ایکشن تک محدود رہیں گی۔ اوباما کے نئے حکم کے تحت امریکی فورسز طالبان اور امریکی فوجیوں یا افغان حکومت کے لئے خطرہ بننے والے دیگر عسکریت پسند گروپوں کے خلاف کارروائیاں جاری رکھ سکیں گی۔ اخبار نے یہ نہیں بتایا کہ نئی صورتحال میں افغانستان میں امریکی فوجیوں کی موجودگی میں پہلے سے اعلان کردہ منصوبے کے مطابق ہو گی یا اس میں کوئی اضافہ کیا جائیگا۔ سکیورٹی کے حوالے سے ہونے والے جرنیلوں اور اعلی سویلین حکام کے اجلاس میں صدر کے معاونین نے کہا کہ مشن میں اگلے سال تک توسیع دیکر مزید امریکیوں کی زندگیوں کو خطرے سے دوچار نہیں رکھا جانا چاہئے اور القاعدہ کیخلاف کارروائیاں محدود کر دی جائیں تاہم جرنیلوں نے رائے دی کہ اگر انٹیلی جنس کے مطابق امریکی فورسز کو انتہا پسندوں سے خطرہ ہے تو مشن کا دائرہ وسیع کیا جانا چاہئے۔ امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کے مطابق اوباما نے حالیہ ہفتوں کے دوران افغانستان میں 2015ء کیلئے مہنگے ترین فوجی مشن معاہدے پر دستخط کئے۔ امریکی فوجیوں پر حملوں کی منصوبہ بندی کی تفصیلات سامنے آرہی ہیں۔ ایک امریکی عہدیدار کے حوالے سے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس تجویز پر غور کیا جارہا تھا کہ امریکی افواج کا کردار القاعدہ تک محدود کردیا جائے مگر فوج کا مطالبہ تھا کہ وہ تمام گروپس کے خلاف کارروائی کرنا چاہتی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ تبدیلی عراق میں داعش کی تیزی سے بڑھتی ہوئی پیشقدمی کو دیکھتے ہوئے کی گئی ہے۔