اوباما مسئلہ کشمیر حل کرنے کا وعدہ پورا کریں!
اپنے دورہ بھارت سے قبل صدر اوباما کی پاکستان اور بھارت کے مابین پرامن تعلقات کی خواہش
امریکہ کے صدر بارک اوباما نے وزیراعظم محمد نوازشریف کو ٹیلی فون کیا ہے جس میں دونوں رہنماﺅں نے دوطرفہ تعلقات کے مختلف پہلوﺅں پر بات چیت کی ہے۔ امریکی صدر نے وزیراعظم کو اپنے دورہ بھارت کے بارے میں اعتماد میں لیا۔ امریکی صدر نے کہا کہ امریکہ کی خواہش ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان پ±رامن تعلقات ہوں۔ انہوں نے وزیراعظم نوازشریف کے دورہ بھارت کو پاکستان کی طرف سے مثبت قدم قرار دیا۔ امریکی صدر نے کہا کہ امریکہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات کا فروغ چاہتا ہے۔ اوباما نے کہا امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات فروغ پائیں۔واضح رہے وائٹ ہاﺅس کے اعلان کے مطابق امریکی صدر اوباما بھارتی یوم جمہوریہ کی تقریب میں شرکت کیلئے جنوری میں بھارت جائینگے اور وہ بھارتی یوم جمہوریہ کی تقریب میں شرکت کرنیوالے پہلے امریکی صدر ہونگے۔ایک اطلاع کے مطابق صدر اوباما نے کہا ہے کہ وہ اپنے دورہ بھارت کے دوران مسئلہ کشمیر اٹھائیں گے۔
پاکستان کا مسئلہ کشمیر پر واضح اصولی مو¿قف ہے جس کے تحت مقبوضہ کشمیر جس پر بھارت نے جارحانہ قبضہ کیا ہوا ہے‘ یہ ایک متنازعہ علاقہ ہے۔ پاکستان اس تنازع کے حل کیلئے اقوام متحدہ کی 1948ءاور 1949ءکی قراردادوں پر یقین رکھتا اور ان پر عملدرآمد کا متقاضی رہا ہے۔ ان قراردادوں میں مسئلہ کشمیر کا حل کشمیریوں کی صوابدید پر چھوڑا گیا تھا کہ وہ استصواب کے ذریعے جس ملک کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں الحاق کرلیں۔بھارت ظلم اور جبر کے ذریعے کشمیریوں کو اپنے ساتھ رکھنا چاہتا ہے۔ اس نے 65 چھیاسٹھ سال میں کشمیریوں پر مظالم ڈھانے کے بجائے‘ انکی اشک شوئی کی ہوتی‘ ان کو حقوق دیئے ہوتے تو اسے استصواب کرانے میں دریغ اور گریز کی پالیسی اختیار نہ کرنا پڑتی۔
مسئلہ کشمیر نے صرف دو ممالک کے امن ہی کو گزند نہیں پہنچائی‘ اس سے خطے میں عدم استحکام پیدا ہوا جس کے اثرات پوری دنیا میں محسوس کئے جاتے ہیں۔ سپرپاورز نے جنوبی ایشیاءکے حوالے سے جو بھی پالیسی بنانی ہو یا بڑے رہنماءنے اس خطے کے دورے پر آنا ہو تو سب سے پہلے اسے پاکستان اور بھارت کے آپس میں تعلقات کا جائزہ لینا پڑتا ہے۔ جیسا صدر اوباما جنوری میں بھارت جا رہے ہیں‘ ممکنہ طور پر و ہ پاکستان بھی آئینگے۔ اسی لئے وہ چاہتے ہیں کہ انکے دورے کے دوران پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں وہ کشیدگی نہ ہو جو آج نہ صرف موجود ہے بلکہ اس میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے جس کا بجا طور پر ذمہ دار بھارت ہے جو دونوں ممالک کے درمیان بنیادی تنازع ”مسئلہ کشمیر“ کے حل پر تیار نہیں۔ وہ مسئلہ کشمیر کی بات کرنے پر بگڑ جاتا ہے‘ کشمیر کے حریت پسندوں کو دہشت گرد قرار دیتا ہے اور پاکستان کو ان کا پشت پناہ سمجھتا ہے۔ اسکی نظر میں پاکستان میں ان حریت پسندوں کے ٹھکانے‘ پناہ گاہیں اور تربیتی مراکز ہیں۔ ایسے الزامات کا اعادہ وہ کشمیریوں پر ڈھائے جانیوالے اپنے مظالم سے عالمی برادری کی توجہ ہٹانے کیلئے کرتا ہے۔ اسکے پاکستان میں دہشت گردی کے ثبوت سامنے آچکے ہیں۔ بلوچستان میں وہ علیحدگی پسندوں کی ہر طرح سے مدد کر رہا ہے۔ دہشت گردوں کیخلاف ضرب عضب اپریشن ناکام بنانے کیلئے اس نے لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باﺅنڈری پر اشتعال انگیزی شروع کی تاکہ پاک فوج کی دہشت گردوں کے خاتمے کے اپریشن سے توجہ بٹ جائے۔ بھارت کی جارحیت کا اندازہ اسکی لیڈرشپ کے اس بیان سے لگایا جا سکتا ہے کہ ”پہلے ہم نے ڈھال تھام رکھی تھی‘ اب تلوار اٹھالی ہے۔“ عارضی بارڈر پر اسکی چند ماہ کی دہشت گردی میں 20 سے زائد افراد شہید اور ہزاروں نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔ گزشتہ روز پاکستان نے ایل او سی پر بھارت کی ایک بار پھربلااشتعال فائرنگ پر شدید احتجاج کیا ۔ بھارت کے سینئر سفارتکار کو دفتر خارجہ طلب کر کے احتجاج ریکارڈ کرایا گیا ہے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان کے مطابق پانڈو سیکٹر میں بھارتی فائرنگ سے پاک فوج کا جوان شہید ہوا تھا۔ بھارت سے کہا گیا ہے کہ وہ فوری طور پر بلا اشتعال فائرنگ بند کرے ۔
گو وزیراعظم میاں نوازشریف نے ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں مسئلہ کشمیر پر اپنے جرا¿ت مندانہ مو¿قف کا اظہار کیا‘ گزشتہ دنوں مظفرآباد میں کشمیر کونسل سے خطاب کے دوران بھی انہوں نے یہ کہا کہ مسئلہ کشمیر پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔ پاکستان کیخلاف بھارتی پراپیگنڈا اپنے گناہوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش ہے۔ مگر انکے عمومی رویہ سے بھارت پر ریشہ خطمی ہونے کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ وہ مودی کی حلف برداری میں تشریف لے گئے‘ جہاں مودی کے جارحانہ رویے کے مقابلے میں وزیراعظم نوازشریف کا مصالحانہ اور دفاعی رویہ تھا۔ انکی حکومت ہنوز بھارت کے ساتھ خسارے کی تجارت جاری رکھے ہوئے ہے اور اسکی بھارت کو پسندیدہ ترین ملک قرار دینے کی خواہش میں کوئی کمی نہیں آئی۔ دوسری طرف بھارت کے وزیراعظم‘ وزیر دفاع‘ وزیر داخلہ و خارجہ حتٰی کہ آرمی چیف کی طرف سے پاکستان اور پاک فوج کیخلاف ہرزہ سرائی معمول ہے‘ انکی زبانیں زہر اگلتی ہیں۔ اس طرف سے کبھی ٹھنڈی ہوا کا جھونکا نہیں آیا۔
اوباما کی پاکستان بھارت تعلقات میں بہتری کی خواہش بجا لیکن اس کا مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر پورا ہونا ممکن نہیں ہے۔ اوباما نے جنوری میں بھارت آنا ہے۔ اس سے قبل نوازشریف اور نریندر مودی سارک کانفرنس کے دوران کھٹمنڈو میں ایک چھت تلے ہونگے۔ اس کانفرنس کے حوالے سے بھارتی ہاکس کی تلواریں نیام سے باہر آچکی ہیں‘ کہا جا رہا ہے کہ اس کانفرنس کے دوران نواز مودی ملاقات نہیں ہوگی۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران بھی دونوں رہنماءایک دوسرے سے نہیں ملے تھے۔ اوباما کے دورے سے قبل نریندر مودی اپنے رویے میں تبدیلی کرتے ہیں تو امریکی صدر کے اس دورے میں پاک بھارت تعلقات میں کشیدگی نمایاں طور پر کم ہو سکتی ہے۔ ایک تو مودی اپنی زبان کو کنٹرول میں رکھیں‘ اپنی کابینہ کو پاکستان کیخلاف زہر اگلنے سے روکیں اور مسئلہ کشمیر پر مذاکرات کیلئے آمادگی ظاہر کریں۔
صدر اوباما نے کہا ہے کہ وہ بھارت کے دورہ کے موقع پر مسئلہ کشمیر پر بات کرینگے۔ اوباما کو یاد ہونا چاہیے کہ انہوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران مسئلہ کشمیر حل کرانے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔ پاکستان اور اسکے حامی حلقوں نے اسکی بڑی پذیرائی کی تھی مگر اوباما نے اقتدار میں آکر مسئلہ کشمیر پر چپ سادھ لی۔ اب انکی دوسری ٹرم بھی پوری ہونے کو ہے‘ وہ اپنا مسئلہ کشمیر کے حل کا وعدہ پورا کریں تاکہ خطے میں ایٹمی جنگ کے خطرات کے بادل چھٹ سکیں اور امن و امان قائم ہو سکے۔