• news

مشرف کے ’’ساتھی ‘‘آرٹیکل 6 کی دلدل میں

بلاشبہ جنرل مشرف کا 12 اکتوبر 1999ء کا اقدام آئین شکنی کی بدترین مثال ہے۔ ایسی ہی آئین شکنی جنرل محمد ضیاء الحق نے بھی کی تھی۔ دونوں جرنیلوں کے اقتدار کو پارلیمان اور عدلیہ نے جائز قرار دیا۔ 3 نومبر 2007ء کو جنرل مشرف کی طرف سے ایمرجنسی کے نفاذ کو اس سپریم کورٹ نے آئین شکنی قرار دیا جس کے سربراہ افتخار محمد چودھری تھے۔ جسٹس افتخار سپریم کورٹ کے اس بنچ کے رکن تھے جس نے مشرف کے 12 اکتوبر 1998ء کے اقدام کو نہ صرف جائز قرار دیا بلکہ اپنی طرف سے ایک جرنیل کو آئین میں ترمیم کے اختیار کا تحفہ بھی دیدیا۔ اس بنچ کے سربراہ جسٹس ارشاد حسن خان تھے جن کو ریٹائرمنٹ کے بعد چیف الیکشن کمشنر بنا دیا گیا تھا۔
 ایک آمر کے سامنے حرف انکار نے جسٹس افتخار محمد چودھری کو ہیرو بنا دیا تھا۔ جنرل مشرف نے ان پر دو مرتبہ وار کیا۔ دونوں سے جسٹس افتخار سرخرو ہو کر نکلے۔ پھر جب ان کو موقع ملا تو انہوں نے بھی ادھار چکانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ آج جنرل مشرف اگر مقدمات کی دلدل میں پھنسے ہیں تو اس میں ان کا اپنا قصور ہے کہ وہ عین اُس وقت پاکستان آئے جب جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں عدلیہ فعال اور آزاد بلکہ کچھ زیادہ ہی آزاد تھی۔ رہی سہی کسر مسلم لیگ ن کے اقتدار میں آنے سے پوری ہو گئی۔ شریف خاندان جسٹس افتخار سے بھی زیادہ مشرف کا زخم خوردہ تھا۔ دونوں نے مشرف کو مقدمات خصوصی طور پر سنگین غداری کیس کی دلدل میں پھینک دیا۔ جنرل مشرف نے اس دلدل سے نکلنے کی بہت کوشش کی لیکن حریف کچھ طاقتور اور کچھ فائول پلے کرنیوالے تھے۔ مشرف نے ان کو بھی اپنے ساتھ دلدل میں کھینچنے کی کوشش کی جس میں وہ بالآخر کسی حد تک کامیاب ہو گئے۔
 گزشتہ روزغداری کیس کی سماعت کرنیوالی خصوصی عدالت نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کی ایمرجنسی لگانے سے متعلق اس وقت کی وفاقی حکومت ،اعلیٰ عسکری و سول قیادت کو شریک جرم کرنے سے متعلق درخواست جزوی طور پر منظور کر لی اور سابق وزیراعظم شوکت عزیز‘ سابق وزیر قانون زاہد حامد اور سابق چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کو بھی فریق بنانے کی ہدایت کر دی۔ عدالت نے تینوں ملزمان کے بیانات قلمبند کرنے اور وفاقی حکومت کو اِنکے نام شامل کرکے 15دن میں دوبارہ درخواست دائر کرنے کا حکم دیا ہے۔ پرویز مشرف نے درخواست کی تھی کہ دیگر شریک افراد کے خلاف بھی غداری کا مقدمہ چلایا جائے یا پھر انہیں بھی بری کر دیا جائے کیونکہ وہ اس سارے معاملے میں اکیلے نہیں تھے اور ایمرجنسی لگانا فرد واحد کا کام نہیں۔ بنچ کے ایک رکن جسٹس یاور علی نے فیصلے پر اختلافی نوٹ بھی تحریر کیا۔انہوں نے 5 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ میں لکھاہے کہ ایسی کوئی شہادت سامنے نہیں آئی جس کی بنیاد پر تینوں کو شریک ملزم نامزد کیا جائے۔ پرویز مشرف نے 3 نومبر 2007ء کو ایمرجنسی کے نفاذ کا خود اعلان کیا۔
اس فیصلے پر کچھ حلقوں کی طرف سے کہا جا رہا ہے ’’پہلے ہی باتیں ہو رہی تھیں کہ فیصلہ حکومت کے خلاف آئے گا۔‘‘ اشارہ فوج کی طرف ہے جس کے سیاسی قیادت کے ساتھ تعلقات مثالی نہیں ہیں۔ یہ بھی باتیں ہوتی رہیں کہ فوج نے دھرنے والوں کی اس طرح سے حمایت نہیں کی جس طرح دھرنوں کے حامی امید لگائے بیٹھے تھے۔ فوج نے دھرنے والوں کو راندہ د رگاہ بھی قرار نہیں دیا۔ یہی حلقے یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ دھرنے والوں کے مطالبات عدالتوں کے ذریعے پورے ہو سکتے ہیں۔ یہ حلقے مذکورہ فیصلے کو بھی اسی تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔ ایاز صادق اپنے حلقے کی گنتی پر سٹے لے رہے تھے، کل ہائیکورٹ نے وہ بھی خارج کر دیا کیا سے کے پیچھے بھی ہے ؟
اسحق ڈار کو مسلم لیگ ن کا معتدل اور دانشور لیڈر سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے دو تین روز قبل عمران خان کے خلاف جو کچھ کہا وہ اخلاقیات کے کسی معیار پر پورا نہیں آتا۔ ’’سیتاوائٹ کیس میں عمران خان اپنا بلڈ ٹیسٹ کروائیں، عمران خان ایک ناجائز بچے کے باپ ہیں۔ ‘‘عمران خان کی زبان بھی کبھی کبھی اخلاقی قدروںگر جاتی ہے۔ مگر اسحق ڈار نے ستیا وائٹ کا ذکر اس انداز سے کیا جس پر تحریک انصاف کا بے لگام اور بدزبان ونگ زبان درازی کر سکتا ہے۔ مسلم لیگ ن کی قیادت نے حسین حقانی کے ذریعے جس طرح بینظیر بھٹو کی کردارکشی کی تھی اس پر پیپلز پارٹی کی طرف سے کوئی جواب نہیں دیا گیا تھا تحریک انصاف والوں سے ایک بلند کردار کی امید نہ رکھیں۔ اسحق ڈار کی دانشوری انکے کل کے بیان پر بھی سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے جس میں انہوں نے زاہد حامد کے استعفے پر کہا کہ وزیر اعظم نے ان کا استعفی قبول نہیں کیا۔ جو دلیل لائے اس کے کیا کہنے ’’فیصلہ چونکہ متفقہ نہیں اس لئے اس کا جائزہ لے کر حکومت اپنا موقف دے گی‘‘ ان کو کون بتائے کہ عدالتی فیصلوں پر موقف نہیں دیا جاتا، فیصلوں پر عمل کیا جاتا ہے۔ کیازاہد حامد اسحق ڈار جتنا بھی قانون نہیں جانتے جنہوں نے استعفیٰ دیدیا ۔ وہ جنرل مشرف کے وزیر قانون تھے۔ انہوں نے اسی ایمرجنسی کے حق میں قومی اسمبلی میں قرار داد پیش کی جو منظور بھی ہو گئی تھی جس کی پاداش میں آج ایک پنڈورہ باکس کھلتا نظر آ رہا ہے۔اسحق ڈار بتائیں کہ متفقہ کے بجائے اکثریت سے کئے گئے فیصلے کیا متنازعہ ہوتے ہیں؟ ان پر عمل نہیں ہوتا؟ جس جج نے اختلافی نوٹ لکھا ان کے بارے میں کیا یہ کہا جائے کہ حکومت کے ایما پر انہوں نے دیگر دو ججوں کے فیصلے سے اختلاف کیا۔اگر یہ کہا جائے کہ فیصلے کے پیچھے فوج کا ہاتھ تو یہ بھی کہا جا سکتا ہے اختلاف کرنیوالے جج کے پیچھے حکومت کا ہاتھ تھا۔ اختلاف کرنا اس تناظر میں افسوسناک ہے کہ دوسرے صوبوں میں پہلے ہی پنجابی ججوں کے تعصب کی بات ہوتی ہے۔ ایسی آبزرویشن کو ان لوگوں کی نادانی کہا جا سکتا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ان کو ایسا کہنے کا موقع ہی کیوں دیا جائے۔ بھٹو کو پھانسی سے اختلاف کرنے والے ججوں کا تعلق پنجاب کے سوا دیگر صوبوں سے تھا۔ حالیہ دنوں انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی تحقیقاق کیلئے جوڈیشل کمیشن کی بات ہوئی کہا گیا کہ اس میں غیر پنجابی جج شامل کئے جائیں۔ پنجاب کی بدقسمتی رہی ہے کہ اس پر تنقید برائے تنقید کو فیشن بنا لیا گیا۔
جسٹس یاور علی نے پوری ایمانداری سے بھی ابزرویشن دی اور اختلافی نوٹ لکھا ہے تو بھی اسے پنجابی جج کانوٹ کہا جا رہا ہے۔ بہر حال مشرف غداری کیس میں جو بھی ان کا معاون رہا اس کو کٹہرے میں ضرور لایا جانا چاہئیے۔ 12 اکتوبر 1999ء کو مشرف نے واقعی آئین شکنی کی۔ اس میں ان کی معاونت پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ کے ججوں نے کی۔ اگر عبدالحمید ڈوگر ایمرجنسی کو جائز قرار دینے پر آرٹیکل 6 کی زد میں آسکتے ہیں تو مشرف کے 1999ء کے اقدام کوجائز قرار دینے والے کیوں نہیں؟؟؟ وہ زد میں آئے تو جنرل ضیاء کے ساتھیوں پر بھی قیامت ٹوٹ سکتی ہے۔

فضل حسین اعوان....شفق

فضل حسین اعوان....شفق

ای پیپر-دی نیشن