اسلامی معاشرہ اور ہماری ذمہ داریاں
اپنی قیادت کیلئے ایسے افراد کا انتخاب کریں جو حکمرانی کے فرائض ادا کرنے کی بہترین اہلیت رکھتے ہوں اور جو اپنے فرائض انصاف اور غیر جانبداری سے ادا کریں۔ عوام اگر اپنے ووٹ کے حق کو سوچ سمجھ کر اور ایک قومی ذمہ داری کے طور پر استعمال نہیں کرینگے تو ایماندار اور موزوں ترین نمائندوں کا انتخاب ممکن نہیں ہو سکتا۔ جمہوریت ایک مثالی نظام ہے لیکن عوام اگر اپنے نمائندوں کا انتخاب کرتے ہوئے شعور، دیانت اور ہوشمندی کا مظاہرہ نہیں کرینگے تو ایسے عیار، مکار اور بے اصول سیاستدان اسمبلیوں میں پہنچ جائینگے جو قومی معاملات کو سنوارنے کے بجائے عوام کو مزید ظلم، ناانصافی اور استحصال کا شکار بنا ڈالیں گے۔ جو حکمران عوام کے سونپے ہوئے اقتدار اور اختیارات کو انصاف کے ساتھ استعمال نہیں کرتے ان کا احتساب کرنا بھی عوام کی ذمہ داری بنتی ہے۔ اگر عوام ظالم، نااہل اور بدعنوان حکمرانوں کیخلاف بغاوت نہیں کرتے تو پھر عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کا عمل رُک نہیں سکتا۔ اگر ہم بُرے لوگوں کو انکی بداعمالیوں پر جرأت سے ٹوکنے کا اپنا حق استعمال نہیں کریں گے تو پھر ہمارا شمار بھی بُروں ہی میں ہو گا۔ ہم سب سیاست میں پھیلے ہوئے گند کی نشاندہی تو کرتے ہیں مگر سیاست کے گند کو صاف کرنے کیلئے ہم اپنا کردار ادا نہیں کرتے۔ آج بھی ہم قیام پاکستان جیسی کامیابیاں حاصل کر سکتے ہیں جب قوم نے خود کو تحریک آزادی کیلئے وقف کر دیا تھا تو ہم پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی مدد اور رحمتیں نازل ہوئیں۔ اب بھی اگر ہم میں ویسا جذبہ ایمانی بیدار ہو جائے تو خدا ہمیں کبھی مایوس نہیں کریگا۔ جب ہمیں اللہ تعالیٰ نے خیر کی صلاحیتوں سے نواز رکھا ہے تو پھر ہم شیطان کے راستے پر کیوں چل رہے ہیں۔ ہم اللہ کے دئیے ہوئے مال و دولت میں سے ان لوگوں پر خرچ کیوں نہیں کرتے جو ہمارے ملک میں غربت اور انتہائی کسمپرسی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ جن لوگوں کو ربّ تعالیٰ نے خوشحالی اور ان گنت آشائشوں سے نواز ہوا ہے وہ ان آسائشوں کو محروم طبقوں میں تقسیم کیوں نہیں کرتے۔ اسلام نے جو معاشی قاعدہ قرآن کریم میں بیان کیا ہے وہ یہ ہے کہ دولت کی گردش پورے معاشرے میں عام ہونی چاہئے۔ یہ نہیں کہ دولت صرف مالداروں کے درمیان ہی گردش کرتی رہے اور امیر طبقہ روز بروز امیر تر ہوتا جائے اور غریب عوام روز بروز غریب تر ہوتے جائیں۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارا خوشحال ترین طبقہ ہمارا حکمران بھی ہے اور ہمارے حکمرانوں نے سیاست کو بھی اپنے لئے ذریعہ تجارت بنا رکھا ہے۔ اس لئے وہ معاشرے کے کچلے ہوئے عوام اور پسے ہوئے طبقے کے حالات تبدیل کرنے کی توجہ کیا دیں گے۔ جن کم از کم افراد کے ہاتھوں میں پورے ملک کی دولت مرتکز ہو چکی ہے وہی طبقہ ہمارا حکمران ہے۔ سود خوروں کے خلاف اللہ اور رسولؐ کی طرف سے اعلان جنگ ہے۔ بطور مسلمان قوم کتنے افسوس، حیرت اور شرم کا مقام ہے کہ ہمارے حکمران وہ لوگ ہیں جنہوں نے سود کے نظام کے تحفظ کیلئے سپریم کورٹ سے حکم امتناعی لے رکھا ہے۔ سود خوری کا مطلب یہ ہے کہ ایک انسان اپنے ہی ہم جنس انسانوں کا معاشی استحصال کرتا ہے۔ اس لئے سود کی قرآن کریم میں سخت الفاظ کے ساتھ مذمت کی گئی اور اسے حرام قرار دیا گیا ہے۔ یہ بڑی عجیب و غریب صورتحال ہے کہ جب اللہ نے سود کو حرام کہہ دیا ہے تو پھر بھی ہم اپنی قائم کی عدالتوں میں اللہ کے حکم کے خلاف درخواست دائر کر دیتے ہیں۔ ہمارا آئین تو ضمانت دیتا ہے کہ پاکستان میں قرآن و سنت سے متصادم کوئی قانون نہیں بنایا جا سکتا تو پھر اللہ تعالیٰ کے فیصلوں کے خلاف ہم سود کے نظام کو کیسے برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ ہم ایک اسلامی ملک میں اس وقت تک روحانی، اخلاقی اور مادی فوائد کیسے حاصل کر سکتے ہیں جب تک ہم اللہ اور اُس کے رسولؐ کے خلاف جنگ میں مصروف کار ہوں۔ ایک اسلامی معاشرے میں کامیابیوں کے حصول کے لئے جو ضابطے اللہ نے بنا رکھے ہیں جب تک ہم ان ضابطوں کی پابندی نہیں کریں گے ہمیں اس وقت تک دنیا و آخرت میں فلاح نصیب نہیں ہو سکتی۔ (ختم شد)