جاندار فیصلہ: استعفیٰ زاہد اور اسحاق ڈار؟
”گو نواز گو“ کرتا کرتا عمران خان لاڑکانہ پہنچ گیا۔ واپسی پر خوش فہمی عمران خان کے ساتھ دامن گیر تھی کہ اس نے لاڑکانہ ”فتح“ کر لیا۔ اس پر محض ایک شعر ہے جو قارئین محترم کی نذر کرووں گا کیونکہ آج معاملہ اور موضوع کچھ اور ہے....
لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجئے
اب دلکش ہے ترا حُسن مگر کیا کیجئے
تحریک انصاف کے بعد ایک چھوٹی بات (ق) لیگ کی بھی کرنی ہے جس کا اطلاعات و نشریات کا سیکرٹری ماضی کے ایک کامیاب و کامران وزیرتعلیم پنجاب کو بنا دیا گیا ہے جو فقط (ق) لیگی نہیں دراصل اصلی مسلم لیگ خاندان کا چشم و چراغ ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ میاں عمران مسعود کے بڑوں نے مسلم لیگ کی شمع کو منظم اور محترم انداز میں گجرات میں روشناس کرایا۔چودھری شجاعت حسین کے والد محترم جناب ظہورالٰہی جب ڈگمگا رہے تھے‘ ان کے روابط کبھی ایوب خان سے بھی تھے اور ہیلو ہائے بھٹو صاحب سے بھی تھا تو میاں عمران مسعود کے سیاسی سربراہ و بزرگ میاں اکبر مرحوم کا تعلق قائداعظم کے بعد محترمہ فاطمہ جناح سے بھی مستحکم اور مکرم تھا۔ ماضی میں عمران مسعود کو شہبازشریف کے علاوہ میاں نوازشریف بھی بہت پسند کرتے تھے۔ اسی کیلئے کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے کہ .... ”اگر“ کوئی سیانے میاں عمران مسعود کو میاں برادران کے قریب کر گئے تو چودھری پرویزالٰہی کے مقابلہ پر اگر شہری و دیہی موجودہ حلقہ پر عمران مسعود سامنے آجائیں تو زبردست سیاسی دھچکا ہوگا۔ مگر یہ بھی سچ ہے کہ ہزار تعلقات اور سیاسی نشیبوں کے سامنے کے باوجود فراز کو تھامنے کیلئے عمران مسعود نے چودھریوں سے وفا کا رشتہ ترک نہیں کیا۔ بہرحال بقول فیض....
رسم اُلفت سے کارِ رنجش تک
کچھ تو اپنے بھی سر لیا ہوتا
قارئین باتمکین! پچھلے ہفتہ وار کالم میں بھی ایک استعفیٰ بلکہ دو استعفے کالم کا محور و مرکز تھے۔ بیور وکریسی سے ناراضی کے سبب مرتضیٰ جتوئی کے استعفے کی بات ہوئی پھر تذکرہ ہوا عبدالحکیم بلوچ کے استعفے کا بھی۔ دونوں وزراءکی کارکردگی بھی چونکہ رانا تنویر‘ برجیس طاہر‘ عثمان ابراہیم‘ عباس آفریدی‘ پیر صدرالدین راشدی (پگاڑہ)‘ سکند ر بوسن جیسی تھی لہٰذا قوم کو ان کے استعفوں سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ اگر کوئی فرق پڑا ہوگا تو بلوچ صاحب اور جتوئی صاحب یا (ن) لیگ کو۔ اگر یہ متذکرہ وزراءبھی استعفے دیں اور میاں نوازشریف نوجوان اور پُرعزم لوگوں کو سامنے لے آئیں تو ملک و قوم اور (ن) لیگ پر بھی احسان ہوگا۔ ہم نے تو اس سے قبل بھی کئی دفعہ تذکرہ کیا ہے کہ ”احسن اقبال اور انجینئر خرم دستگیر سے کچھ وزراءکی ٹریننگ اور سائیکو تھراپی کرا لیں۔ شاید خوابیدگی کو کچھ بیداری مل جائے۔ یہ سب تو تھا پچھلے ہفتے کا ‘ تازہ ترین استعفیٰ ہے زاہد حامد کا۔ وہ الگ بات ہے کہ استعفوں کے انداز مختلف ہیں‘ لیکن انتہائی حیران کن اور سخت پریشان کن معاملہ یہ ہے کہ وزیرخزانہ اسحاق ڈار زاہد حامد کے استعفیٰ پر منفی سیاست‘ غیر جمہوری فکر‘ غیر حقیقی سوچ اور مطلوبہ فلاسفی کے بالکل برعکس ردعمل دے رہے ہیں۔ مشرف غداری کیس میں جب سابق وزیراعظم شوکت عزیز‘ سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ عبدالحمید ڈوگر اور سابق وزیرقانون زاہد حامد کو شریک ملزم ٹھہرانے کا فیصلہ سامنے آیا تو زاہد حامد نے وزرات سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے استعفیٰ دیدیا۔ بہرحال اچھا کیا‘ لیکن اسحاق ڈار کا ردعمل تھا کہ ابھی استعفیٰ قبول نہیں ہوا۔ ہم اسے دیکھ رہے ہیں کیونکہ فیصلہ دینے والے تین ججوں میں سے ایک کا اختلافی نوٹ سامنے آیا ہے۔ وہ الگ بات ہے کہ اختلاف کرنے والے فاضل جج نے خود کہا کہ اس کا فیصلے پر کوئی اثر نہ ہوگا۔جانے اسحاق ڈار اس منطق کو کیوں بھول گئے کہ ان کی (ن) لیگ مشرفی قوانین اور پرویزی دستور کے خلاف لڑنے کا کریڈٹ لے رہی ہے۔(ن)لیگ جنرل مشرف کو نہ معاف کرکے تاریخ میں سنہری مقام چاہتی ہے۔ ایک وزیر محض ایک وزیر کو بچانے کیلئے‘ پھر وزیر بھی وہ جو اگر آئندہ کچھ سال زندہ رہا تو پی پی پی‘ عمران خان یا کسی آئندہ آمر کا وزیر بننے کیلئے شیروانی دھلوائے بغیر اوربنا نہائے اگلا حلف بھی اٹھا سکتا ہے۔ وزارتوں کی منڈی میں کچھ بیوپاری ایسے بھی پھررہے ہوتے ہیں جو مقصود نہیں مگر ”مطلوب“ہوتے ہیں جنہیں رکھنا ضرورت نہیں ”واجب“ ہوتا ہے۔ لیکن اسحاق ڈار واجب پر نہیں یہاں فرض پر جائیں۔ کیا ہوا زاہد حامد جاتے ہیں‘ جہاں تانی خراب ہو وہاں تند کیسے ٹھیک ہو سکتی ہے۔ سچ بتایئے۔ آپ زاہدوں کو بچانا چاہتے ہیں یا عابدوں کو بھی؟ رہنے دیجئے پھر شوکت و پرویزو ڈوگر کو بھی رہنے دیجئے۔ اگر زاہدوں سے ذاتی دوستی ہے تو ”عابدوں“ سے کون سی آپ کی ذاتی دشمنی ہے؟؟؟ کچھ سیانے تو پھر درست ہی کہتے ہیں نا ”تتلیوں کے موسم میں نوچنا گلابوں کا.... ریت اس نگر کی ہے اورجانے کب سے ہے۔“ ویسے آپس کی بات ہے کہ اسحاق ڈار صاحب کو ہر معاملے میں بولنے کی جلدی والی مرض سے جلد از جلد چھٹکارا حاصل کرنا چاہئے اور ان کیلئے مفت مشورہ یہ ہے کہ وہ خواجہ سعد رفیق اور رانا ثناءاللہ والے حکیم سے رابطہ منقطع کر دیں کیونکہ اس حکیم کی دیسی دوا کے بھی سائیڈ افیکٹ ہیں۔ میاں نوازشریف اور بی بی انوشہ رحمن (وزیر مملکت) ہی اسحاق ڈا رکو سمجھا سکتے ہیں۔ کیونکہ قیادت اور ”قولیگ“ کی شیریں بیانی کا نسحہ کڑوے حکیمی نسخے سے بہتر ہوتا ہے!!!جانے دیں زاہد حامد کو اور توجہ کریں ایک تو جنوری 2015ءمیں اوباما صاحب بھارتی دورہ کیلئے رخت سفر اور زادِ راہ کو مربوط کررہے ہیں‘ اس پر توجہ کی ضرورت ہے۔ سرتاج عزیزاور میاں صاحب سر جو ڑکر بیٹھیں اور گھر کے بندے ہونے کے ناطے اسحاق ڈار میاںصاحب کو کوئی مفید مشورہ دیں۔ اب ہم صرف پاکستان میں نہیں گلوبل ویلیج میں بھارت کے پڑوس میں رہ رہے ہیں اور دوسری اہم بات یہ کہ جو سیاسی جن بوتل سے باہر نکلا ہوا ہے‘ اس نے بھی نئے انداز اور نئی آواز کے ساتھ 30 نومبر کو پھر سے اسلام آباد میں دمادم مست قلندر کا تہیہ کر رکھا ہے۔ اڑتی ہوئی ملی ہے خبر بزم ناز سے کہ‘ عمران خان کو گرفتار‘ نظربند یا آزاد رکھنے کے حوالے سے بھی حکومت سوچ وبچار کر رہی ہے۔ گویا اسحاق ڈار صاحب کو زاہدی توجہ کے بجائے عمرانی توجہ کا رخ کرنا چاہئے۔ تبصروں کیلئے پرویزرشید کافی ہیں۔ پھر جناب ڈار اپنی توجہ اپنے کاموں‘ اصل کاموں کی جانب بھی تو لائیں اور غور کریں کہ تیل کی قیمتوں کو کم ہوئے کئی ہفتے بیت گئے‘ لیکن مہنگائی کا گراف اوپر ہی اوپر جا رہا ہے۔ پہلے ہی ایک خاندان کے 22 افراد آپ حکومت پر قابض ہیں اور یوں آپ وزارت پارلیمانی امور‘ وزارت انصاف اور وزارت اطلاعات و نشریات پر قبضہ گروپ نہ بنیں۔ پلیز!!!ضرورت اس امر کی ہے کہ 1۔ ان زاہدوں کو نہ بچائیں‘ انصاف کو اصل شکل میں سامنے آنے دیں‘ اگر آنا ہے۔ 2۔ فضول وزراءکو جلد چلتا کریں اور کچھ پُرعزم اور باصلاحیت نئے اور پرانے لوگوں کو وزارتی قلم دان سونپیں۔ 3۔ کالا با غ ڈیم کو سبز باغ بننے سے بچایا جائے۔ 3۔ (ق) لیگ کے سیاسی نعرے کو حکومت عملی فریضہ سمجھے‘ ورنہ اندھیرے ہیں۔ 4۔ بیورو کریسی کے مس پوز کو پوزفل بنائیں۔ سیاستدانوں اور بیورور کریٹس مل کر عوام کو بے وقوف نہ بنائیں۔ 5۔ چھوٹے شہروں کی نئی یونیورسٹیوں میں تحقیقی عمل کیلئے فنڈ دیں نہ کہ مقامی سیاستدانوں کو اداروں پر یلغار کی اجازت دیں۔ 61۔ ازراہ کرم ادویہ کی قیمتوں میں کمی لائی جائے۔ 7 سرکاری ہسپتالوں میں توجہ کی ضرورت ہے۔ سرگودھا میں 35 بچوں کی نرسری میں جب یکایک 6 بچے داخل ہو جائیں تو وہاںڈی ایچ کیو کا کیا قصور ہے؟ تو گویا ڈاکٹروں سے بھی بڑے ذمہ دار حاکم ٹھہریں گے یا بیور وکریٹس ‘یہی وہ کام ہیں جو جمہوریت اور حکومت کو بچانے میں معاون ہونگے۔ ہاں! آئین کی قوت بخش دفعہ 90 سے استفادہ کریں اور اداروں کو استحکام دیں‘ اپنے آپ کو نہیں!!!