پیر ‘ ا 1436ھ‘24 نومبر 2014ء
آتشزدگی کے بعد مشینری چوری کرکے فروخت کرنے پر پی ٹی سی ایل ایکسچینج کے گریڈ 20 کے افسر سمیت 6 ملازم گرفتار۔ اب شبہ تو یہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ کہیں آگ بھی انہی چوروں نے تو نہیں لگوائی تاکہ بعد میں مشینری چوری کی واردات بھی ڈال سکیں۔ اس سانحہ پر سر پیٹنے کو جی چاہتا ہے۔ کیا کوئی اپنا گھر بھی اس بے دردی سے برباد کرتا ہے جس طرح ہم اپنے اداروں کی تباہی کر رہے ہیں۔ کبھی ایل ڈی اے پلازہ‘ کبھی پی ٹی سی ایل ایکسچینج‘ کبھی کسٹمزہاﺅس میں اسی طرح پُراسرار طریقے سے آگ بھڑک اُٹھتی ہے اور کروڑوں کی املاک کے ساتھ قیمتی فائلیں‘ دفتری سازوسامان بھی جل کر خاکستر ہو جاتا ہے۔یا واردات سے قبل ادھر ادھر کر کے فروخت کر دیا جاتا ہے اور بعد میں یہ واردات ہوتی ہے۔ اس پر تو بے ساختہ....
دل کے پھپھولے جل اُٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
والا شعر زبان پر مچل جاتا ہے۔ چلیں مان لیتے ہیں آگ خودبخود لگی‘ کسی کی شرارت نہیں تھی مگر یہ کیا کہ جلنے والی قیمتی مشینری اور سامان کباڑیے کو ارزاں نرخوں پر بیچ دیا گیا اور وہ بھی اتنی مہارت اور رازداری سے کہ کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوئی۔ ”ہینگ لگے نہ پھٹکڑی رنگ بھی چوکھا“ والی بات کو ضرور درست ثابت کرتا ہے اس طرح گنگا میں ڈبکی لگانے والے کم ہی دیکھنے میں آتے ہیں جو اتنی مہارت سے کھنڈر میں سے بھی خزانہ برآمد کر لیتے ہیں۔ اب اس گریڈ 20 کے اعلیٰ افسر کے کرتوت ہی دیکھ لیں ۔ اگرچہ ہمارے ہاں اکثر اعلیٰ افسران ایسے ہی ہوتے ہیں مگر اس درجہ پر گرنا تو ان کیلئے بھی شاید اتنا آسان نہ ہوگا۔ اب کہیں یہ نیا فارمولا انہوں نے بھی اپنا لیا تو پھر کیا ہوگا۔ پہلے کیا کم آگ لگی ہوئی ہے سرکاری محکموں میں کہ اب ہر افسر اپنے اثاثے بڑھانے کیلئے خود ہی اپنے ادارے کو ہی آگ لگانا شروع کر دے اور ہر طرف ہاہاکار مچی دکھائی دے۔ اب دیکھنا ہے موصوف کو بھی کڑی سزا ملتی ہے یا پہلے کی طرح الزام نچلے درجے کے ملازمین پر ڈال کر صاحب کی جان بچائی جاتی ہے۔
٭....٭....٭....٭
نااہل وزیروں کو ہٹانا ہے تو پہلے نااہل وزیراعظم کو ہٹایا جائے: سردار ذوالفقار کھوسہ!
حکومت کے ناقدین میں عمران خان اور طاہرالقادری کیا کم تھے کہ اب ذوالفقار کھوسہ بھی اس پیرانہ سالی میں لٹھ لیکر ان پر چڑھ دوڑے ہیں۔ یہ واقعی حکومت کیلئے مشکل وقت ہے مگر کیا کیجئے اس مشکل راہ کا انتخاب بھی شریف برادران نے خود کیا ہے۔ حکومتی پالیسیوں سے عوام تو نالاں تھے ہی‘ اب پارٹی کارکن اور عہدیدار بھی سرعام اندرونی کہانیاںاور کچا چٹھا کھولتے نظر آتے ہیں۔ یہ بُری بات ہے۔ گھر کی بات گھر کے اندر ہی ختم ہو جائے تو بہتر ہے بہت سے لوگوں کی عزت رہ جاتی ہے۔ لوگ تو تماشا لگا کر مزے لیتے ہیں۔ ابھی کل تک تو کھوسہ اور شریف برادران میں بڑی گاڑھی چھنکتی تھی اور آج یہ حال کہ وزیراعظم کو ہی نااہل وزیروں کے ٹولہ کا سرغنہ بنا دیا۔ کل تک جب کھوسہ جی بھی وزارت اور گورنری کا مزہ لوٹ رہے تھے‘ اس وقت تک تو انہیں وزیراعظم یا وزیراعلیٰ میں کوئی نااہلی نظر نہیں آئی تھی۔ اس وقت تو وزیراعظم یا وزیراعلیٰ ارسطو ثانی نظر آتے تھے۔ اور کھوسہ صاحب ان کے خوشہ چین بنے ہوئے تھے جو انکے ہر فرمان پر واہ واہ کا نعرہ تحسین بلند کرتے تھے اس وقت بہتر یہی تھا کہ کھوسہ جی سرداروں والی بردباری دکھاتے‘ دوستی نبھاتے مگر افسوس انہوں نے بھی باغی ہاشمی والی راہ اپنائی اور....
بیچ بجریا میں کھل گیا پول
بھولو رام کا پھٹ گیا ڈھول
والی بات صحیح ثابت کر دی۔ اب جو انجام باغی ہاشمی کا ہو رہا ہے‘ وہی کھوسہ صاحب کا بھی ہوتا نظر آرہا ہے۔ مگر یہ بات یاد رکھنے والی ہے کہ ہاشمی کے نام کے ساتھ جڑا لفظ باغی اس کے کردار کی منہ بولتی کہانی بیان کرتا ہے۔ کھوسہ صاحب اپنے لئے ایسا کوئی لفظ کہاں سے لائیں گے۔ کون تراشے کا کسی پتھر سے صنم‘ یہاں تو صنم تراش کے ہتھوڑے سے کسی صنم کے لہو کی بوندیں ٹپکتی نظر آرہی ہیں۔
٭....٭....٭....٭
گوجرانوالہ میں مسلم لیگیوں نے عمران پر پھینکنے کیلئے انڈے‘ ٹماٹر اور پرانے جوتے جمع کر لئے۔ بے شک کسی لیڈر کا استقبال کرنے کا حق جہاں حامیوں کو ہے‘ اسی طرح مخالفین کو بھی ہوتا ہے مگر یہ استقبال احتجاج کی صورت میں اپنا اثر اور رنگ دکھاتا ہے۔ اگر اس میں رنگ بھرنے کیلئے‘ سنسنی پیدا کرنے کیلئے‘ شہرت حاصل کرنے کیلئے انڈے‘ ٹماٹر اور جوتے بھی شامل کئے جائیں تو اس کا نتیجہ بُرا بھی نکل سکتا ہے کیونکہ جواب میں کوئی پھول تو نہیں برسائے گا ناں۔ایک مرتبہ بھٹو مرحوم کو بھی جلسے میں جوتے دکھائے گئے تو اس ”ایول جینئیس“ شخص نے فوراً ”مجھے معلوم ہے جوتے مہنگے ہو گئے ہیں“ کا جملہ کہہ کر احتجاج کرنے والوں کا منہ بند کر دیا، مگر اب ایسے قابل لوگ کہاں....؟
سیاسی رہنماﺅں پر‘ مخالفین پر انڈے اور ٹماٹر برسانے کا یہ مشغلہ بڑا پرانا ہے مگر وہ دور ارزانی کا تھا‘ ٹماٹر اور انڈے سستے داموں ملتے تھے۔ زیادہ خریدیں تو قیمت اور بھی کم ہو جاتی تھی مگر آجکل کونسا ایسا حاتم طائی پیدا ہو گیا ہے جو سونے کے بھاﺅ بکنے والے ٹماٹر اور انڈے خرید کر اسے صرف مخالف پر پھینکنے کیلئے یعنی اپنے نمبر بڑھانے کیلئے استعمال کرے گا۔ پولیس کے مطابق یہ انڈے اور ٹماٹر خریدار نے ذاتی استعمال کیلئے جمع کئے ہیں جبکہ مخالفین کا الزام ہے کہ ان ٹماٹروں اور انڈوں پر ”گو عمران گو“ کے نعرے درج ہیں۔ بہتر تو یہ تھا اور نقص امن بھی پیدا نہ ہوتا اگر عامر بٹ یہ نعرے لکھے انڈے اور ٹماٹر مفت شہر بھر میں تقسیم کرتا تاکہ غریب غرباءاسے لیکر کھا کر اسے دعائیں دیتے اور احتجاج بھی پورا ہوتا اور اسکا حسن احتجاج بھی بر قرار رہتا۔ آخر ”گو گو“ والے انڈے اور ٹماٹر کھانا کونسا منع ہے کسی کوچاہے آملیٹ بنا کر کھانے چاہئیں یا ابال کر‘ دونوں صورتوں میں یہ مزہ دیتے ہیں۔