بیماری، غربت، بھوک کے باوجود تھر والے باہمت، مہمان نواز ا ور زندہ دل لوگ ہیں
کراچی (بی بی سی) سندھ کے غریب ترین سرحدی ضلع تھرپارکر میں قحط و خشک سالی، پانی کی کمی، جانوروں کی بیماری، غربت کے سبب ناکافی غذائیت، صحت اور تعلیم کی ناقص سہولتیں قدیم مسئلہ ہے اور مقامی لوگ ان آفات و مصائب کے صدیوں سے عادی ہیں اور جی رہے ہیں۔ تھر والوں نے یہ نظریہ بھی غلط ثابت کردیا ہے کہ غربت جرائم کو جنم دیتی ہے۔ آپ کو دیگر اضلاع کی نسبت آج بھی یہاں چوری، ڈاکے، اغوا اور قتل جیسے جرائم خال خال ملتے ہیں۔ البتہ نہری علاقوں سے جرائم پسند عناصر اس صحرا میں کچھ برس سے آنے جانے لگے ہیں۔ تھر والوں نے یہ نظریہ بھی جھٹلا دیا کہ بھوک آداب کے سانچوں میں نہیں ڈھل سکتی۔ صدیوں سے ہندو اور مسلمان شانہ بشانہ ہیں۔ البتہ حالیہ برسوں میں باہر سے آنے والے کچھ لوگ مقامی مسلمانوں کو مزید مسلمان بنانے پر تلے بیٹھے ہیں۔ اہلِ تھر نے یہ خیال بھی باطل کردیا کہ سڑک عام آدمی کے لیے ترقی اور خوشحالی لاتی ہے۔ آج تھر کے تمام اہم قصبے پکی سڑک نے ہم رشتہ کر دیئے ہیں۔ اس سے یہ فرق ضرور پڑا ہے کہ پہلے بنتے مٹتے صحرائی راستوں کے سبب قحط زدہ علاقے ایک دوسرے سے کٹے رہتے تھے اب جڑے ہوئے ہیں۔ پہلے جدید مواصلاتی نظام نہ ہونا تعلیمی و صحت کی سہولتوں میں کمی کا سیاسی جواز تھا۔ اب سیکرٹریٹ مافیا نے جا بجا ویران سکولوں اور کھنڈرات میں تبدیل ہوتے صحت کے مراکز کی لاوارث لاشیں بکھیر دی ہیں۔ تھر والوں نے یہ سوچ بھی مسترد کر کے دکھا دی کہ مفلسی حسِ لطافت کو مٹا دیتی ہے۔ یہ لوگ زمین سے باتیں کرتے ہیں۔ چرند و پرند کی زبان سمجھتے ہیں۔ درختوں سے دوستی کرتے ہیں۔ حیرت انگیز سنگ تراش ہیں۔ بہترین کھانا پکانے والے، بہترین ڈرائیور، بہترین کاشت کار اور مزدور ہیں۔ مہمان نواز ایسے کہ خود بھوکے رہ لیں گے پر بے زبانوں کو بھوکا پیاسا نہیں رہنے دیں گے۔ قرابت دار ایسے کہ کسی بھی تھری سے پوچھ لو تمہارے گھر میں کتنے لوگ ہیں۔ وہ بتائے گا میری بیوی، چار بچے، ماں، پانچ بکریاں، ایک اونٹ اور سات مرغیاں اور پھر ان کے بارہ چوزے ہیں۔ رہی تھر کی زمین تو کون کہتا ہے کہ بنجر ہے۔ جتنی موسیقی تھر میں اگتی ہے شاید ہی کہیں لہلہاتی ہو۔ ممکن ہی نہیں کہ تھر کے کسی گاو¿ں یا راستے پر کوئی ایک سریلا بھی نہ ملے۔ یہاں کے تو مور بھی ایسے جمالی ہیں کہ چاند رات میں پنکھ پھیلائے سر بکھیرتے خود کے پاو¿ں نہیں روک پاتے۔ مور کہاں رقص کی تھرکتی درس گاہیں ہیں۔ شاہ لطیف یونہی تو تھر کے عشق میں دیوانہ نہیں تھے۔ شاید اسی لیے آج کے بونے اور کور چشم سماج میں یہ تھری لوگ مکمل مس فٹ ہیں۔ جو بھی بیرونی آتا ہے اسے کارونجھر ایک کوہِ حسن نہیں بلکہ گرینائٹ کا پہاڑ نظر آتا ہے۔ کسی کو سفید ٹیلے چائنا کلے دکھائی دیتے ہیں۔ کوئی پورے تھر کو بس کوئلے کی عالی شان کان سمجھتا ہے۔ اور کوئی ترقی کے خواب امدادی ٹھیلے پر بیچتا ہوا نکل جاتا ہے۔ سب کو تھر نظر آتا ہے۔ کسی کو تھری نظر نہیں آتا۔ تھر کا بس ایک بنیادی مسئلہ ہے۔ وہ ہے بے حسی۔ اجتماعی ریاستی بے حسی۔ وہ بھی ایسی شدید کہ بیان کرنے کے لیے کم ازکم اردو میں تو کوئی لفظ نہیں۔
تھر والے