• news

قائم مقام چیف الیکشن کمشنر جسٹس جمالی کی خدمات 5 دسمبر سے واپس: حکومت کو مزید مہلت نہیں دے سکتے: سپریم کورٹ

اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت/  نوائے وقت نیوز/ نیٹ نیوز) سپریم کورٹ نے قائم مقام چیف الیکشن کمشنر کی خدمات واپس لے لی ہیں اور یہ عدالتی حکم 5دسمبر سے موثر ہوں گے۔ بی بی سی کے مطابق سپریم کورٹ کے تعلقات عامہ کے اہلکار شاہد کمبوہ نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ چیف جسٹس ناصر الملک نے سپریم کورٹ کے جج کی خدمات واپس لینے کا حکم دیا ہے۔ اس ضمن میں سیکرٹری الیکشن کمشن کو آگاہ کر دیا ہے۔ اس سے پہلے سپریم کورٹ نے چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کے لئے وفاقی حکومت کو مزید وقت دینے سے انکار کیا تھا۔ عدالت کا کہنا تھا کہ اس ضمن میں وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کو نوٹس جاری کئے جائیں گے۔ چیف جسٹس ناصر الملک نے انتظامی آرڈر جاری کیا ہے جس کے مطابق موجودہ قائم مقام چیف الیکشن کمشنر جسٹس انور ظہیر جمالی 5دسمبر تک خدمات سرانجام دیں گے اس کے بعد وہ دستبردار ہو جائیں گے۔ سپریم کورٹ آفس نے چیف جسٹس کے احکامات بارے سیکرٹری الیکشن کمشن کو آگاہ کر دیا ہے۔ نجی ٹی وی کے مطابق سپریم کورٹ کے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ 5دسمبر کو جسٹس انور ظہیر جمالی کی بطور قائم مقام چیف الیکشن کمشنر خدمات واپس لے لی جائیں گی۔ الیکشن کمشن کو اس بارے میں آگاہ کر دیا گیا ہے۔ اس سے قبل سپریم کورٹ نے مستقل چیف الیکشن کمشنر کے تقرر کے کیس میں حکومت کو مزید مہلت دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بس بہت ہوگیا‘ مزید وقت نہیں دیں گے‘ یکم دسمبر تک چیف الیکشن کمشنر کی تقرری نہ کی تو وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کو نوٹس جاری ہوں گے، بلدیاتی انتخابات سے متعلق وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کو بھی نوٹس جاری کرسکتے ہیں‘ یہ حکم چیف جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے جاری کیا۔ چیف جسٹس ناصرالملک  نے کہا کہ مستقل چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کا معاملہ لٹکایا جا رہا ہے، حکومت چاہے تو قائد حزب اختلاف سے فون پر بھی مشاورت کرسکتی ہے۔ کافی وقت دیا ہے مزید وقت نہیں دیں گے۔ قائد حزب اختلاف ملک میں واپس آئیں گے تو وزیراعظم دورے پر باہر چلے جائیں گے یہ معاملہ اسی طرح طول پکڑتا جائیگا، جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ حکومت چاہے تو معاملہ ایک دن میں ہی حل ہوسکتا ہے۔ حکومت کو اضافی ایک گھنٹہ بھی نہیں دے سکتے۔ اگر مخلصانہ کوشش کی گئی ہے تو اس کا ریکارڈ عدالت میں پیش کریں۔ سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل پیش ہوئے اور انہوں نے عدالت کو بتایا کہ حکومت مستقل چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کیلئے مخلصانہ کوششیں کررہی ہے اس حوالے سے چار ناموں پر غور کیا گیا جس میں دو ریٹائرڈ ججوں جسٹس (ر) تصدق حسین جیلانی اور جسٹس (ر) رانا بھگوان داس نے مستقل چیف الیکشن کمشنر بننے سے انکار کردیا ہے۔ دونوں مرتبہ حکومت اور اپوزیشن کا مستقل چیف الیکشن کمشنر کے نام پر اتفاق ہوا تھا مگر ایک سیاسی جماعت کی وجہ سے معاملات مکمل نہیں ہوسکے اب نئے سرے سے مشاورت کرنا ہوگی۔ قائد حزب اختلاف بیمار اور بیرون ملک ہیں ان کی واپسی پر معاملہ طے کرلیا جائے گا۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے تو کہا تھا کہ 24 نومبر تک تقرری کردی جائے گی آپ کو بہت مواقع دئیے اب مزید تاخیر نہیں کرسکتے۔ قائم مقام چیف الیکشن کمشنر کا نوٹیفکیشن واپس لیں گے۔ یہ اتنا بڑا معاملہ نہیں کہ جس میں اتنی زیادہ تاخیر کی جارہی ہے۔ اگر ایک عہدے کیلئے یہ حال ہے تو باقی معاملات کیسے چلیں گے۔ بعدازاں عدالت نے آرڈر لکھواتے ہوئے کہا کہ چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کے حوالے سے حکومت کو مزید وقت نہیں دے سکتے۔ حکومت عدالت میں جواب پیش کرے۔ اس معاملے کی یکم دسمبر کو بلدیاتی انتخابات کے مقدمے کے ساتھ سماعت کی جائے گی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ بادی النظر میں ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ حکومت عدالتی احکامات پر عمل درآمد کرنے میں سنجیدہ نہیں۔ عدالت اس ضمن میں وزیراعظم اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کو نوٹس جاری کرے گی۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ حکومت عدالتی احکامات پر عملدرآمد پر یقین رکھتی ہے اس ضمن میں مخلصانہ کوششیں کی جا رہی ہیں۔ عدالت نے کہاکہ ایسی صورت حال میں تو وفاقی حکومت کو ایک گھنٹے کی مہلت بھی نہیں دے سکتے۔ نجی ٹی وی کے مطابق سپریم کورٹ نے قائم مقام چیف الیکشن کمشنر کو واپس لانے کے لئے نوٹیفکیشن جاری کرنے کا حکم دیدیا ہے۔الیکشن کمشن کے حکام نے کہا ہے کہ 5دسمبر تک چیف الیکشن کمشنر کی تقرری نہ کی گئی تو الیکشن کمشن غیرفعال ہو جائے گا۔ واضح رہے کہ چیف الیکشن کمشنر کی عدم موجودگی میں ضمنی یا بلدیاتی الیکشن نہیں ہو سکتے۔

ای پیپر-دی نیشن