کپتان اور حکمران خون خرابے سے بچیں
30 نومبر کو اسلام آباد میں عمران خان کا سونامی ٹکرانے کی امید ہے اگر حکومت نے لاکھوں کے اجتماع سے زیادہ خوف زدہ ہو کر ریاستی جبر و امن و امان کے قیام کے نام پر پکڑ دھکڑ‘ نظربندیوں‘ رکاوٹوں‘ گرفتاریوں کا فیصلہ کیا تو کئی مقامات اور شہروں میں دمادم مست قلندر ہو گا۔ نقص امن‘ تشدد لاٹھی چارج‘ آنسو گیس‘ گولیاں چلانا‘ جلائو گھیرائو‘ پتھرائو‘ آگ خون کے منظر کئی شہروں اور قومی شاہرات پر نظر آئینگے! ملک کی تصویر ایک مستحکم انتشار زدہ‘ کمزور حکمرانی کی بن جائیگی! خوف و ہراس ‘ سراسمیگی ‘ قومی سلامتی کو درپیش خطرات کا منظر نامہ ہو گا یہ سب پاکستان کیلئے تباہی کا راستہ ہے اگر حکمرانوں نے غلط سکیورٹی پالیسی بنائی یا پولیس ‘ ایجنسیوں‘ رینجرز کا غیر ضروری استعمال کیا تو خون خرابہ حکومت کے ذمہ ہو گا البتہ کپتان اور تحریک انصاف بھی کسی صورت بری الذمہ نہ ہوں گے کیونکہ 30 اور 31 اگست کو عمران‘ قادری دھرنہ سیاست نے معاہدہ اور زبان کی پاسداری کا لحاظ نہ کیا اور معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ریڈزون توڑا‘ پارلیمنٹ ‘ وزیراعظم ہائوس‘ صدارتی رہائش گاہ کی جانب عوامی شتر بے مہار یلغار کر دی جنہیں قبل ازیں طاہر القادری اور عمران نے کئی مرتبہ گرما گرم‘ تلخ‘ تند و تیز بیانات سے ’’یلغار‘‘ کے لئے ذہنی طور پر تیار کیا تھا اس موقع پر فوج اور چودھری نثار خان نے پارلیمنٹ ‘ وزیراعظم ہائوس‘ وغیرہ کو ’’قبضے‘‘ ’’یلغار‘‘ یرغمال سے بچانے کے نام پر بے پناہ ناجائز ہزاروں آنسو گیس‘ گولیاں اور ربڑ گولیاں چلا دیں جس سے 5 سے زائد عورتیں مرد جاں بحق ہو گئے اور بچے (معصوم) خواتین بے ہوش ہوئے اور 550 زخمی ہوئے ایسے گولیاں اور آنسو گیس چلانے کے گھبراہٹ پر مبنی فیصلے چودھری نثار علی خاں نے کئے۔ نتیجہ ملک میں سیاسی رسہ کشی میں انتہائی شدت اور حکومت اب گئی‘ کل گئی کا نکلا جسے پارلیمانی پارٹیوں اور میڈیا نے مل کر بچایا! اب دوبارہ 30 نومبر کو لاکھوں کا ’’سونامی‘‘ اسلام آباد کے مقتدر ایوانوں سے ٹکرا ئے گا!!
وفاقی حکومت ‘ میاں محمد نوازشریف ‘ چودھری نثار علی خان‘ ہوم سیکرٹری‘ سکیورٹی اداروں اور خصوصی سیل وزارت داخلہ کے علاوہ خفیہ اداروں کو ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے غلطیوں سے پاک درست حکمت عملی اور پالیسی بنانا چاہئے حکومت کے پاس بلاشبہ بے پناہ طاقت ہوتی ہے لیکن اسے ’’طاقت‘ اقتدار‘ بالادستی کے زعم میں عوامی پرامن احتجاجوں پر بے تحاشا غلط استعمال کرنا بہت بڑی حماقت تصور کیا جاتا ہے۔ قادری‘ عمران کو نرم کرنے‘ کچھ لو‘ کچھ دو پر آمادہ کرنے‘ مذاکرات‘ بات چیت معاہدے پر لانے کیلئے وفاقی بڑے وزراء کو اپنی تلخ‘ طعنے زدہ ‘ بعض اوقات بازاری زبان کو ہر صورت روکنا ہو گی۔ چاہے وہ اسحاق ڈار ہوں یا پرویز رشید‘ خواجہ سعد رفیق یا عابد شیر علی نما کئی دوسرے درجہ کے ترجمان اگر حکومت نے سکھ کا سانس لیا ہے اور ملک کوآگے لے جانا ہے تو حکمران طاقت‘ اقتدار کے جھوٹے گمان سے نکلیں۔ زمینی حقائق دیکھیں‘ عمران کے پورا ملک فتح کرتے بڑے جلسے دیکھیں اور جلسوں کو روکنے کے لئے فوری عملی اقدامات کریں جو صرف عمران‘ قادری کے جائز مطالبات اور تحقیقات مان کر ہو سکتے ہیں۔ اگر حکمران یہ سمجھتے ہیں کہ دھرنے‘ شہر شہر جلسوں سے کچھ نہیں بگڑا تو یہ انکی بھول ہے بلکہ حماقت عمران قادری کے لاکھوں کے جلسے عوامی سوچ کا واضح عملی اشارہ ہیں۔ حکمران اپنا غلط رویہ اور منافقت تبدیل کریں۔ انکی بُری حکمرانی اور غریب کی حالت سنوارنے کے بجائے جینا حرام کر دینے والی اقتصادی پالیسیوں سے بڑا طبقہ غصے کی کیفیت میں ہے۔ یہی وجہ عمران قادی جلسوں میں لاکھوں کی شرکت سے عیاں ہے جو حکمران 30 روپے پٹرول کی قیمت کم نہ کرکے احسان جتائیں کہ 6 تا 9 روپے کم کر دی‘ وہ عوام کو بے وقوف بنانے کا کھیل کیوں کھیل رہے ہیں۔ سیدھا 15 روپے لیٹر کم کرنے کا اعلان کریں۔ اربوں روپے کی منافع خوری کے بجائے تیل‘ گھی‘ دودھ‘ دالیں‘ کھیت مزدور کی لاگت کے فائدے عوام کو دیں ورنہ متبادل تو صرف عمران خان ہی رہے گا۔30 نومبر کے ’’سونامی‘‘ کو اسلام آباد لانے والے عمران خان بھی سوچ لیں کہ مزید نعشوں کو گرانے کا سیاسی کھیل ان کو عوام کی نظروں سے گرا دیگا۔ دھرنا‘ انقلابی غیر سنجیدہ سیاست اور عامیانہ‘ گھٹیا زبان درازی سے پہلے ہی باکردار‘ خاندانی‘ پڑھا لکھا طبقہ لاکھوں کی تعداد میں انکی حمایت‘ قائدانہ صلاحیت‘ طرز سیاست سے کنارہ کش ہو چکا۔ یہ باتیں عمران خان کو وہ دو نمبر مشرف اور زرداری کے دست راست کبھی نہیں بتائیں گے جن کے ہاتھوں میں عمران خان کھیل رہے ہیں۔ یہ تلخ سچ ہے! پہلے ہی دھرنا سیاست نے تقریباً 20 نعشیں بے قصور لوگوں کی سمیٹ لی ہیں۔ قیامتیں تو بوڑھے ماں باپ‘ بیوہ عورتوں پر ٹوٹتی ہیں۔ عمران مقدمات درج کرانے‘ عیادتیں کرنے‘ دھمکیاں دینے‘ لٹکانے کے ’’لالی پاپ‘‘ دیتے رہتے ہیں۔ کبھی دو نعشیں اپنے خاندان کے اندر اٹھانا پڑیں تو چودھری نثار علی خان‘ میاں برادران اور رانا ثناء اللہ کو ’’اصل بھائو‘‘ معلوم ہو کہ بہن کا سہاگ اجڑے یا ماں ’’زندہ درگور‘‘ ہو جائے کہ جوان بیٹا مر گیا!! پتھر دل سیاست کار 30 نومبر اور اس کے بعد مزید بے گناہ نعشوں کے گرانے کا مکروہ کھیل بند کریں۔ پُرامن احتجاج کا وعدہ کرکے اسے پُرامن اور قابو میں رکھنے کے پارٹی اقدامات بھی کریں۔ ایسی جگہ کا انتخاب اور اتفاق کر لیں جس سے کسی صورت ٹکرائو یا خون خرابہ کا امکان ختم ہو جائے! حکومت بھی چار حلقوں کی گنتی اور دھاندلی کا مطالبہ مانے اور سپریم کورٹ کا خصوصی ٹربیونل فوری کام شروع کرے۔ عمران خان خود چیف جسٹس سپریم کورٹ کو لکھ کر دیں کہ ٹربیونل پر مجھے اعتماد ہے۔ غیر جانبدار تحقیقات شروع کی جائیں۔ عمران بھی جوش میں ہوش کا دامن نہ چھوڑیں۔ حکمران زبانی جمع خرچ بند کرکے عملی اقدامات کریں۔