اچھوں کو برا ثابت کرنا دنیا کی پرانی عادت ہے
سراج الحق نے کہا ہے کہ حکمرانوں نے پاکستان کو مستقل غربت‘ مہنگائی اور جہالت کا گھر بنا رکھا ہے۔ تھر میں بچے مر رہے ہیں مگر ظالم حکمرانوں کو کوئی پرواہ نہیں ’’بچارے سراج الحق تو کافی عرصے سے حکمرانوں کو شائستگی اور نرمی سے راہ راست پر آنے کی تلقین کر رہے ہیں لیکن جب کسی پر ہدایت کے دروازے بند ہو جائیں تو اس پرنرمی سختی کچھ اثر نہیں کرتی اور پتہ چلتا ہے کہ قدرت نے اس کی رسوائی اور تماشے کا عبرتناک فیصلہ تقدیر کی تختی پر رقم کر دیا ہے۔ دوسری جانب عمران خان مسلسل حکومت کو وارننگ دے رہے ہیں لیکن وزیراعظم اور انکی نالائق حکومت یہ سمجھ بیٹھی ہے کہ امریکہ خوش رکھیں گے تو اقتدار کا چپو چلتا رہے گا۔ تھر میں بچوں کے مرنے پر نہ تو سندھ حکومت کو شرم حیا ستائی اور نہ فاقی حکومت کے کان پر پر جوں رینگی۔ یہ سارے بچے غیر طبعی اموات کا شکار ہو رہے ہیں کیونکہ یہ بچے بھوک قحط اور بیماری کا شکار ہیں۔ یہ تینوں امراض قابل علاج ہیں موجودہ حکومت کی جہالت کا یہ عالم ہے کہ اس نے طے کر رکھا ہے کہ جب تک کوئی مر نہ جائے‘ انہوں نے کسی کی مدد نہیں کرنی۔ بم پھٹنے سے ‘ ایکسیڈنٹ ہونے سے‘ قتل کرنے سے یا کسی بھی وجہ سے مرنے سے حکومت حرکت میں آتی ہے اور لواحقین کے پاس فوٹو سیشن کیلئے پہنچ جاتی ہے پانچ دس لاکھ روپے کی امداد کا اعلان ہوتا ہے۔ کئی بار صرف اعلان کا شوق ہی پورا کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ سیلاب زدگان کو جوچیک دئیے گئے‘ ان میں سے اکثر نمائشی تھے۔ وہ کیش ہی نہیں ہوئے۔ یہ تھوڑی بہت امداد جو حکومت مجبوراً یا پھر پروجیکشن کی غرض سے بڑ احسان کر کے کرتی ہے۔ تو حکوت کو کان کھول کر سن لینا چاہئے کہ یہ سارا خزانہ ہمارا ہے۔ ہمارے ٹیکسوں سے یہ خزانہ بھرتا ہے۔ عوام کے خون پسینے کی کمائی سے یہ رقوم اکٹھی ہوتی ہے۔ سیلاب‘ زلزلہ ‘ قحط ‘ دہشت گردی یا کسی بھی وجہ سے کوئی حادثہ رونما ہو تو امداد عوام کی دی ہوئی رقوم کی مدد سے کی جاتی ہے۔ یا پھر غیر ملکی (اقوم متحدہ ‘ یورپی یونین‘ سعودی عرب) چندوں سے عوام کی مدد کی جاتی ہے۔ کبھی نوازشریف، شہبازشریف‘ آصف زرداری اور ان کے حواریوں نے اپنی جیب سے کسی کو ایک آنہ نہیں دیا۔ ابھی اسحاق ڈار نے ٹریک لگاتے ہوئے کہا کہ عمران وزارت خزانہ میں ایک کوڑی کی کرپشن دکھا دیں۔ ظاہر ہے کہ عمران خان ایک کوڑی‘ ایک آنے یا ایک روپے کی کرپشن کیسے ثابت کر سکتے ہیں۔ یہ کرنسی تو اسحاق ڈار کے بچپن میں چلتی تھی۔ اور کئی دہائیوں سے متروک ہے۔ اسحاق ڈار نے تو کھربوں روپے کی کرپشن کے ریکارڈ قائم کرکے آصف زرداری کو بھی مات دیدی ہے۔ دبئی ‘ برطانیہ‘ امریکہ اور سعودیہ میں انکے گھر‘ بنک بیلنس اور بچے ہیں جو ڈالروں سے اشنان کرتے ہیں اور ساڑھے پانچ فٹ کے قدوں پر بارہ فٹ لمبی گاڑیوں میں بیٹھتے ہیں۔ جبکہ قبر بھی 2 گز کی ہوتی ہے۔ ساڑھے پانچ فٹ کے یہ لوگ اتنے بڑے اور اونچے گھروں میں رہ کر اپنے احساس کمتری کو دباتے اور چھپاتے ہیں ورنہ انسان کو رہنے کیلئے ایک گھر ہی تو چاہئے ہوتا ہے مگر ہوس کا کیا ہے۔ نپولین بونا پارٹ کے چھوٹے سر اور چھوٹے سینے میں بڑے بڑے منصوبے اور خواہشیں تھیں مگر جب مرا تو خالی ہاتھ تھا۔ یہی ایک بات پاکستان کے حکمرانوں کو کبھی سمجھ نہیں آئی کہ آپ امریکہ کو خوش کر کے اقتدار کی پینگیں لے سکتے ہیں مگر ملک الموت کو رام کر کے زندگی کے کشکول میں چند گھڑیاں بھی مستعار نہیں لے سکتے۔ اسحاق ڈار کھربوں روپیہ بٹور کر یہ سمجھتے لگے ہیں کہ ان کا کوئی حساب نہیں کریگا۔ وہ آج کل خود کو ڈپٹی پرائم منسٹر کا درجہ دینے لگے ہیں۔ جب اسحاق ڈار اور ان جیسے رشتہ داروں سے جواب نہیں بنتا تو وہ رکیک اور غیر اخلاقی حملے کر کے اپنا قد ظاہر کر دیتے ہیں۔ یہ بات بار بار کہنا کہ عمران خان ایک ناجائز بچی کے باپ ہیں۔ اگر عمران خان نے بھی آپ لوگوں کے ذاتی اعمال نامے بیچ چوراہے میں کھول دئیے تو آپ لوگ منہ چھپانے کیلئے کہاں جائینگے۔ آپ کی نیک نامیوں کے پیچھے بھی کئی داستانیں ہیں اور کرپشن کے سیاہ ترین داغ ہیں۔ آپ کا اعمال نامہ کھلنے کی دیر ہے پھر دیکھئے خلقت کیا سلوک کرتی ہے۔ یہ تو طے ہے کہ میاں برادران اقتدار کے آخر دن کاٹ رہے ہیں اور آپ بھی گنتی کے چند دنوں کے وزیر خزانہ رہ گئے ہیں۔ آئینہ دکھانے والوں سے آپ چڑ کھاتے ہیں‘ انکا منہ چڑاتے ہیں اور چاپلوسی خوشامد کرنے والوں‘ جھوٹ کے طومار باندھنے والوں کو آپ اپنی گڈ بک میں رکھتے ہیں اور ان پر نوازشوں‘ عہدوں‘ ڈالروں ‘ غیر ملکی دوروں‘ محبتوں‘ عنایتوں‘ پلاٹوں اور کمیشنوں کی بارش کئے رکھتے ہیں۔ اس ملک کو بنانے والوں اور تحریک پاکستان میں قربانیاں دینے والوں کو تو کبھی آپ نے نہ عہدے دئیے۔ نہ پلاٹ دئیے‘ نہ عزتیں دیں نہ محبتیں دیں حالانہ تحریک پاکستان میں قربانیاں دینے والوں کی وجہ سے یہ ملک قائم ہوا جس پر آج آپ زبردستی قابض ہیں۔حالانکہ انہوں نے اپنی جائیدادوں اور جانوں کی قربانیاں دے کر یہ ملک حاصل کیا تھا آخر یہ حکومت کیا کر رہی ہے۔ … کیا یہ پاکستان اور پاکستانیوں کو ختم کرنا چاہتی ہے؟ ہر روز پاکستانی مر رہے ہیں مگر حکومت میٹنگز بھی مری‘ دبئی‘ انگلینڈ میں کرتی ہے۔ لوگ ڈاکٹروں کی غفلت سے مر رہے ہیں مگر کوئی پوچھنے والا نہیں۔ نوازشریف کی ایک ہی راگنی ہے کہ دھرنے والے ترقی نہیں چاہتے دھرنے والے تو اپنا کام کر رہے ہیں۔ قوم کو جگا رہے ہیں عوام میں شعور پیدا کر رہے ہیں۔ انصاف مانگ رہے ہیں اور حکومت حق مانگنے والوں پر الزام لگا رہی ہے۔ عمران خان کو اشتہاری کہہ کر حکومت نے اپنے تابوت میں آخری کیل ٹھونک لی ہے۔ کاش! حکومت اپنی اصلاح کرتی ۔ اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتی عوام کے لئے کچھ کرتی ‘ مجبوراً مظلوم ضرورتمند عوام کی بددعائیں نہ لیتی اور اچھوں کو برا نہ کہتی تو آج اتنی ملعون نہ ہوتی عمران خان کو فرق نہیں پڑتا کہ اسے برا کہا جائے۔