• news

عمران خان اب بس کرو!

گزشتہ 100دنو ں سے جاری دھرنا جلسوں کی شکل اختیار کر تا ہوا آگے بڑھ رہا ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے اپنے دھرنے کوختم کر کے جلسوں کا آغا ز کر دیا ہے۔ پاکستان میں جمہوریت کبھی بھی مضبوط نہیں رہی بلکہ اتنی کمزور رہی کہ جب کسی نے خواہش کی اقتدار پر قبضہ کر لیا اور جمہوریت کو چلتا کیا۔ پاکستا ن کی تاریخ میں پہلی مرتبہ 2008 کے انتخابا ت میں بننے والی حکومت اور اسمبلیاں اپنی مد ت پوری کر کے رخصت ہوئیں حتیٰ کہ صدر پا کستان نے بھی اپنی مدت پوری کی اور اقتدار ایک سیاسی پارٹی کی حکو مت نے ایک دوسری پارٹی کی حکومت کو منتقل کیا۔ انتقال اقتدار کی یہ مثال پاکستان میں پہلے نہیں تھی ،2013کا الیکشن پُرامن طریقے سے منعقد ہوا، غیر جانبدار نگران حکومتیں اور آزاد الیکشن کمشن کی موجو دگی میں الیکشن ہوا اور اقتدار بھی منتقل ہو گیا۔ ایک سال میں اچانک عمران خا ن کو خیال آیا کہ الیکشن میں تو دھاندلی ہوئی تھی۔ چار حلقوں کو کھولنے کا مطالبہ تسلیم نہ کر نے کا مطلب یہ لیا گیا کہ پورا الیکشن ہی غلط ہے۔ الیکشن میں دھاندلی کے الزام کو سامنے رکھ کر دھرنا شروع کیا گیا جو کہ آج تک جاری ہے۔ اتفا ق یہ ہوا کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں اور پارلیمنٹ نے جمہوریت کے نام پر اتفاق کر لیا ا ور اسلام آباد پر غیرآئینی اور غیر قانونی قبضے کو ناکام بنا دیا۔ فو ج کی قیاد ت سے امید وابستہ کی گئی۔ بار بار ان کو بلایا گیا لیکن ملک کی خوش قسمتی سے فوج کی قیادت نے فریق بننے سے انکار کر دیا۔ اسلام آبا د پر قبضہ کر کے فو ج کو اقتدار سنبھا لنے کی دعوت دی گئی۔ PTV پر قبضہ ماضی میں اقتدار پر قبضہ کی پہلی نشانی ہوتی تھی لیکن اس قسم کے اقدامات کے نتیجے میں بھی حکومت تبدیل نہ ہو سکی اور ڈاکٹر طاہرالقادری دھر نا ختم کر کے کینیڈا چلے گئے۔ عمران خان نے دھرنوں کے سا تھ سا تھ جلسے شروع کر دیے جو آج تک جاری ہیں۔
30 نومبرکو ایک مرتبہ پھراسلام آباد میں یلغارکا پروگرام بنایاجارہاہے جلسہ کرناہرسیاسی پارٹی کا حق ہے لیکن تختہ اُلٹنے کے دعویٰ کرنا کسی طرح بھی جمہوری، آئینی، اخلاقی اور قانونی نہیں۔ عمران خان دھاندلی کے ثبوت اس ہفتے لاناچاہتے ہیںاور ان کوسپریم کورٹ یا الیکشن کمیشن میں پیش کرنے کا اعلان کیا ہے یہ ایک مثبت سوچ ہے۔ آئینی اداروں کی بالادستی کوتسلیم کرکے ہی راستہ بنایا جاتا ہے ماضی میں سیاسی رہنمائوںنے اکثراعلیٰ عدالتوں پرعدم اعتمادکا اظہارکیا لیکن پھربھی انہی سے انصاف مانگا احتجا ج کرنا حق ہے لیکن انصاف کے آئینی اداروںکوتسلیم نہ کرناکوئی حق نہیں۔ سوال یہ ہے کہ دھرنے اور جلسے کس مقصد کیلئے ہو رہے ہیں؟ کیا اقتدار پر قبضہ دھرنوں اور جلسوں کے ذریعے ہو سکتا ہے؟ جمہوریت میں تو اقتدار صرف اور صرف الیکشن کے ذریعے ملتا ہے۔ الیکشن اصلاحا ت کا مطالبہ کیا گیا یہ ایک ایسا مطالبہ تھا جس پر پوری قوم متفق تھی۔ لیکن افسوسناک با ت یہ ہے کہ نامعلوم مقصد کی خاطر الیکشن اصلاحات کے مطالبے کو پیچھے رکھ دیا گیا۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ الیکشن اصلاحات کے مطالبے پر عمل کرایا جا تا ہے۔ 2013کا الیکشن گزرگیا ہے اس کا شور مچانا ختم کرنا چاہیے۔ الیکشن کے بعد تما م سیاسی جماعتوں نے نتائج کو تسلیم کیا تھا تو پھر آج اس کو سوالیہ نشان کیوں بنا رہے ہیں۔ حلقے کھولنے کا مطا لبہ حکومت کے دائرے کار میں نہیں آتا۔ PTI  کی لیڈر شپ کو آئین اور قانون دیکھنا چاہیے۔ الیکشن کمیشن اور عدلیہ کے معاملات میں حکومت مداخلت نہیں کر سکتی، ایک طرف ہم الیکشن کمیشن کو آزاد اور خود مختار دیکھنا چاہتے تو دوسر ی طرف حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کے معاملات میں دخل اندازی کریں۔ قانون اس بات کی اجازت نہیں دیتا۔ اس کا حل صرف الیکشن اصلاحات ہیں اور الیکشن اصلاحات صرف اور صرف پارلیمنٹ کر سکتی ہے۔ قانو ن نے ٹریبو نل کو چار ماہ کا وقت دیا ہے اور قانون ہی اعلیٰ عدلیہ کو اختیار دیتا ہے اس لیے آئین اور قانون بدلنا ہو گا اسمبلیوں کی اہمیت کو سمجھنا ہو گا اس میں جا کر الیکشن قوانین میں تبدیلی لا نا ہو گی۔ دھرنے اور جلسے جلوسوں کا سلسلہ بند کرنا چاہیے اس سے ملک اور جمہوریت کو کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا۔ ملک میں انارکی پیدا ہو رہی ہے لوگ آپس میں لڑ رہے ہیں غیر ملکی سرمایہ کاری رک رہی ہے کیا اس کا فائدہ عمران خان کو ہو گا؟ یقیناً نہیں۔ ضد ختم کر نی چاہیے اور الیکشن اصلاحا ت پر مذاکرات کر نے چاہئیں۔ حکومت کو بھی آگے بڑھنا چاہیے عمران خان مذاکرات کر نے کیلئے نہیں تیار تو بھی حکومت کو الیکشن اصلاحات کے عمل کو تیز کرنا چاہیے، دھاندلی نہیں ہونی چاہیے اس پر کون اختلاف کر سکتا ہے حکومت کو عمران خان کا انتظار نہیں کر نا چاہیے اور پارلیمنٹ کے ذریعے آئینی ترامیم کی جائیں تاکہ 2018 کے ہونیوالے انتخابات صاف اور شفاف ہوں۔ الیکشن اصلاحات کیساتھ ساتھ بلدیاتی انتخابات پر بھی بات ہونی چاہئے حکومتوں کیلئے بلدیاتی انتخابات نہ کرانا بہت بڑی زیادتی ہے ایک طرف قومی وصوبائی اسمبلی کے انتخابات کرانا جمہوریت کیلئے ضروری ہے تو دوسری طرف نچلی سطح پر لوگوں کو اقتدار میں شریک کرنا ناگزیر ہے۔ بلدیاتی ادارے ایک تربیت گاہ کا درجہ رکھتے ہیں ان درسگاہوں نے بڑے بڑے سیاستدان پیدا کئے ہیں۔ عمران خان کو ملکی انتخابات فوری کروانے کی بجائے بلدیاتی انتخابات کے مطالبے کو سرفہرست رکھنا چاہئے اور اس مطالبات کی منظوری انکی بہت بڑی فتح ہو گی۔ گو ان انتخابات کو مقبولیت کا پیمانہ قرار نہیں دیا جاتا لیکن بلدیاتی انتخابات سیاست کا رُخ ضرور متعین کرتے ہیں اور لوگوںکی سوچ کا اظہار بھی کرتے ہیں۔
الیکشن کمیشن کیسا ہونا چاہیے، الیکشن ٹریبونل اور اعلیٰ عدلیہ کے اختیارات کیا ہونے چاہئیں، اس پر مذاکرات ہونے چاہئیں۔ مذاکرات شروع ہو نے سے پہلے بغیر کسی شرط کے بڑی فراخدلی کے سا تھ ارکا ن اسمبلی کے استعفے واپس لیے جائیں اس تما م عمل کو واپس لینے کا مطلب شکست نہیں ہے یہ ملک کی بہت بڑی خدمت ہو گی اگر دھرنوں اور جلسوں کی وجہ سے ایسی الیکشن اصلاحات ہوتی ہیں جسے دھاندلی ہونا ناممکن بن جائے تو یہ ملک، عوام اور جمہوریت پر عمران خان کا بہت بڑا احسان ہو گا اور تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائیگا۔ جمہوریت ایک دوسرے کے حق کو تسلیم کرنے کا سبق سکھاتی ہے جمہوریت جمہوری سفر میں صبر اور برداشت کی ضرورت ہے۔ ظالم جاگیردار، سرمایہ دار اور وراثتی سیاستدانوں کا مقابلہ بھی صرف اور صرف جمہوریت کر سکتی ہے۔ جمہوریت ان سب کیلئے بہترین انتقام ہے اور نیا پاکستان یہ ہے کہ آئندہ نسلوں کو مکمل جمہوریت منتقل کی جائے اور یہ بھی یادرکھنا چاہئے کہ پاکستان میں جمہوریت جتنی مضبوط ہو گی قائداعظم کاپاکستان اتنا ہی توانا ہو گا۔

ای پیپر-دی نیشن