• news

یہ غازی یہ تیرے پُراسرار بندے

جس ملک میں عقیدتیں پیروں کی گدیوں سے منسلک ہوں، عوامی چاہتیں وڈیروں کی جاگیروں اور سرمایہ داروں کی تجوریوں کی مرہون منت ہوں، مذہبی سیاست فرقہ بندی کے خمیر میں گندھی ہو، برادری ازم وجہ انتخاب ٹھہرے، تبدیلی کی خواہاں جماعتیں ووٹوں کی خاطر پرانے لیڈر نئی پیکنگ میں پیش کرنے پر مجبور ہوں، جلسوں میں لوگ کرائے پر لائے جائیں، سرکار ہو تو ریاستی ملازمین کو جلسوں کی رونق بنا دیا جائے۔ اسی ملک میں لاکھوں لوگ سرد موسم میں اپنی جیب سے کرایہ خرچ کر کے، بیوی بچے ساتھ لیکر اپنے تین دن کے کھانے کے اخراجات ادا کر کے مینار پاکستان کے سائے تلے براجمان رہے۔ لاکھوں کے اجتماع میں ڈسپلن ایسا کہ ارد گرد کی سڑکوں پر ٹریفک کسی دشواری اور رکاوٹ کے بغیر رواں دواں رہی۔ ان خدا کے بندوں کے اجتماع کا مقصد صرف ایک تھا کہ اسی مقام سے اسلامی فلاحی ریاست کی جدوجہد کو مہمیز کیا جائے جس مقام پر اس ریاست کا وعدہ کیا گیا تھا۔
یہ لوگ ایک بہت بڑے مشن کے سپاہی ہیں۔ قسمت کے دھنی ہیں کہ مقصد حیات جان لیا۔ اسلامی ضابطہ حیات کے نفاذ کی جدوجہد وہ راستہ ہے جو نبی اکرمؐ نے ریاست مدینہ قائم کر کے دکھایا اور خلفائے راشدین نے اس جادہ و منزل پر بیش قیمت سنگ میل چھوڑے۔ اسی اسلامی ریاست کے قیام کی خاطر حضرت امام حسینؓ نے ملوکیت ماننے سے انکار کیا اور اپنا گھرانہ قربان کر دیا۔ اسی نظام کی جدوجہد میں امام ابوحنیفہ، امام احمد بن حنبل، امام مالک اور امام شافعی نے قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں اور کوڑے کھائے۔ برصغیر میں مولانا مودودی نے اس کام کا بیڑہ اٹھایا اور پھانسی گھاٹ تک دیکھ آئے، انہیں مشورہ دیا گیا کہ سرکار سے معافی مانگ لیں، اس کے جواب میں جو کہا تاریخ رقم کر گیا۔ فرمایا ’’زندگی اور موت کے فیصلے آسمان پر ہوتے ہیں۔‘‘ لیڈر شپ کے لئے ابو الاعلیٰ مودودی نے ایک راہ کا تعین کر دیا۔ یہ اسی راستے کی برکت ہے کہ جماعت اسلامی ملک کی وہ واحد جماعت ہے جہاں قیادت کسی وصیت سے نہیں آتی، کسی کو جانشینی نہیں ملتی، کوئی خود کو قیادت کیلئے پیش نہیں کرتا، لیڈر شپ امیروں کو بیچی نہیں جاتی۔ سراج الحق جیسا جونیئر لیاقت بلوچ، فرید پراچہ اور پروفیسر ابراہیم کے ہوتے امیر منتخب ہوتا ہے اور سب سینئر ’’آمنا و صدقنا‘‘ کہتے ہیں۔ جماعت اسلامی کے وابستگان کو فخر ہونا چاہئے کہ وہ ایک عظیم راستے کے مسافر ہیں اور یقیناً یہ سرفروش یہ بات جانتے ہیں تبھی تو مشکلات کو خاطر میں نہیں لاتے، طعن و تشنیع پر بدمزہ نہیں ہوتے، میڈیا ان کے لاکھوں کے مجمع کو کوریج نہیں دیتا، لوگ ان پر آوازے کستے ہیں، خاندانوں اور معاشروں میں انہیں ’’جماعتیئے‘‘ کہہ کر تنہا کیا جاتا ہے مگر پھر بھی یہ اپنے فلسفہ حیات پر قائم و دائم رہتے ہیں۔الخدمت کے نام سے ملک بھر میں عوام الناس کی خدمت کرتے ہیں، بچیوں کی اجتماعی شادیوں سے لے کر زلزلہ و سیلاب زدگان تک ہر دکھ بانٹتے نظر آتے ہیں، سیاست کو عبادت سمجھتے ہیں۔ ان کے نظم وضبط کی مثالیں دی جاتی ہیں مگر انتخابات ہوتے ہیں تو ہیوی مینڈیٹ کسی اور کے سر سجا ہوتا ہے۔ لوگ جماعت کے اس طرح شانہ بشانہ نہیں ہوتے جس طرح ہونا چاہیے، کھل کر ووٹ دینے سے گریز کیا جاتا ہے۔ مولانا مودودی نے سچ فرمایا تھا کہ حق کی ناکامی یہ نہیں کہ لوگوں نے اسے جھٹلا دیا بلکہ یہ ان لوگوں کی ناکامی ہے جو حق کو سمجھ نہیں سکے۔جماعت اسلامی کو مبارک ہو کہ اسے قاضی حسین احمد مرحوم کے بعد ایک اور عوامی لیڈر میسر آیا ہے جو مخالفین اور معاونین سے بھی ڈائیلاگ پر یقین رکھتا ہے۔جماعت کے کارکنان کو اپنے حوصلے بلند رکھنے چاہئیں جب راستہ درست ہے، نیت صاف ہے، قیادت باعمل، پارسا، جرأت مند اور اعلیٰ وژن سے متصف ہے تو عوامی رائے بدلنے میں دیر نہیں لگتی۔ بالآخر لوگوں کو احساس ہوا ہے کہ ایماندار قیادت ہی اسلامی فلاحی پاکستان کی ضامن ہو سکتی ہے
سراج الحق جب اس منزل کو قریب لانے میں سرگرم و سرگرداں تھے جس پر پہنچ کر جماعت ملک و ملت کی رہنمائی کا فریضہ ادا کرنے کے قابل ہو جاتی، عین اس موقع پر سابق امیر سید منور حسن کے جہاد و قتال فی سبیل اللہ کے بے محل بیان نے ایک بار پھر جماعت اسلامی کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے۔ اسی اجتماع میں ان کا کہنا تھا ’’جہاد فی سبیل اللہ اور قتال فی سبیل اللہ‘‘ معاشرے کے جزو ہیں انہیں ترک نہیں کیا جا سکتا۔ آج قتال فی سبیل اللہ کو دہشت گردی سے تعبیر کیا جا رہا ہے اور اب لوگ جہاد کا نام لینے سے بھی ڈرتے ہیں۔ اگر قتال فی سبیل اللہ کی بات ختم کر دی گئی تو محض جمہوری نظام اور انتخابی سیاست سے انقلاب نہیں آ سکتا۔ قتال فی سبیل اللہ سے اچھائی جیت جائے تب ہی جمہوری سیاست کارگر ہو سکتی ہے۔‘‘ ایک اسلامی مملکت میں جہاد اور قتال فی سبیل اللہ چہ معنی دارد۔ پاکستان میں وہ جن کو جہاد کے علمبردار کہتے ہیں انکی نظر میں خواتین کی حیثیت باندی اور کنیز سے زیادہ نہیں، خواتین پر انہوں نے تعلیم کے دروازے بند کئے ہوئے ہیں۔ سراج الحق ایسے دقیانوسی خیالات کے حامی نہیں ہیں جس کا اندازہ ان کے اجتماع عام کے دوسرے روز چھٹے سیشن ’’بین الاقوامی خواتین کانفرنس‘‘ سے خطاب سے ہو جاتا ہے جس میں انہوں نے کہا ’’ہماری حکومت قائم ہوئی تو ہم خواتین کو بلاسود قرض فراہم کریں گے۔ جو باپ اپنی بچی کو نہیں پڑھائے گا ہم اسے سزا دیں گے۔ تلوار اور قلم کے بعد تیسری بڑی قوت عورت ہے، وہ اپنی قوت کو پہچانیں، اپنی ذمہ داریاں ادا کریں۔ ہم نے خیبر پی کے میں خواتین کے سکولوں کا جال بچھا دیا ہے۔ ہمیں موقع ملا تو ہم پاکستان میں ایسے تعلیمی ادارے بنائیں گے جس میں امریکہ برطانیہ کی خواتین تعلیم حاصل کرتے ہوئے فخر محسوس کریں گی۔‘‘ منور حسن کے ایسے ہی شدت پسندانہ خیالات کے باعث ہی جماعت کے دانشوروں نے ان پر عدم اعتماد کرتے ہوئے اعتدال پسند اور زمانہ موجود کو سمجھنے والے سراج الحق کی قیادت پر اعتماد کیا۔ اللہ ان کا حامی و ناصر ہو۔

محمد یاسین وٹو....گردش افلاک

محمد یاسین وٹو....گردش افلاک

ای پیپر-دی نیشن