سراج الحق کے معتدل فلسفہ پر منور حسن کا ڈرون حملہ!
اللہ اور اسکے رسولؐ کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق انسانی زندگی کی تعمیر کے ذریعے رضائے الٰہی کا حصول۔ یہ تھے وہ اس گولڈن سلوگن کے الفاظ جنہوں نے میرے سمیت لاکھوں نوجوانوں کو جمعیت کی طرف راغب کیا۔ میں جمعیت کا علاقائی ناظم بنا اور اسی پلیٹ فارم سے سٹوڈنٹس یونین کا صدر منتخب ہوا اور یوں طالب علمی سیاست سے عملی سیاست میں داخل ہوا۔ دراصل جماعت اسلامی کے بانی سید ابوالاعلیٰ مودودی (مرحوم) نے قیامِ پاکستان سے قبل ہی جماعت اسلامی کی بنیاد رکھ کر ایک اسلامی تحریک شروع کر دی تھی لیکن قیامِ پاکستان کے بعد جب جماعت اسلامی نے قومی دھارے میں آنے کیلئے انتخابی سیاست شروع کرنا چاہی تو اس کے بانی کارکنان اور لیڈر شپ ڈاکٹر اسرار احمد اورامین اصلاحی نے جماعت سے اپنی راہیں جدا کر لیں اور خالصتاًتحریکی سیاست کی بنیاد رکھی۔ ذوالفقار علی بھٹو اور ایوب خان کے دورِ حکومت میں جماعت اسلامی مرکزی اپوزیشن پارٹی کا رول ادا کرتی رہی۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی کی وفات کے بعد بھٹو بھی زیادہ عرصہ زندہ نہ رہے اور شہید کر دیئے گئے۔ اس دوران جماعت کی امامت مولانا طفیل محمد کے ہاتھ آ گئی، جنہوں نے ڈکٹیٹر ضیاالحق کو اقتدار میں لانے کے لیے نہ صرف عملی جدوجہد کی بلکہ اس کی پہلی کابینہ میں جماعت اسلامی کے متعدد وزراء اقتدار سے فیض یاب ہوئے۔ ضیاء الحق اور میاں طفیل محمد کے درمیان قریبی رشتہ داری بھی تھی جس کی بنا پر ضیاء الحق کے اقتدار کے آخری دن تک جماعت اسلامی اس کی بی ٹیم کا رول ادا کرتے ہوئے سیاسی میدان میں اپنا بہت کچھ کھو چکی تھی، جس کا سب سے زیادہ فائدہ سٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں بنی ہوئی اس مسلم لیگ جس کی بعدازاں قیادت میاں نوازشریف کو ملی کو ہوا۔ میاں طفیل محمد کے دور جماعت اسلامی مسلم لیگ ن کی ’’طفیلی‘‘ پارٹی بن کر رہ گئی۔ اس کے لاکھوں ووٹر ز آہستہ آہستہ مسلم لیگ ن کے ہمنوا بنتے گئے اور اس سے پہلے کہ قاضی حسین احمد اسکی امارت سنبھالتے، اسکے سارے دانے گِر چکے تھے اور یہ ’’مکئی کی چھلی کے خالی تکے‘‘ کی مانند ہو چکی تھی۔ قاضی حسین احمد کی معتدل قیادت نے اس خالی غبارے میں ہوا بھرنے کی بھرپور کوشش کی اور شبابِ ملی قائم کرکے جماعت اسلامی کو پھر سے فنکشنل کیا مگر کوئی خاطر خواہ نتائج برآمد نہ ہو سکے اور پھر جماعت اسلامی کے ہاتھوں وہ غلطی سرزد ہوئی کہ جس کے نتائج وہ آج تک بھگت رہی ہے۔ 2008ء میں قاضی حسین کی سبکدوشی کے بعد سید منور حسن کو جماعت اسلامی کا نیا امیر چُن لیا گیا جنہوں نے نئے دور کے تقاضوں کے مطابق جماعت کو لے کر چلنے کی بجائے وہی فرسودہ اندازِ سیاست کو اپنایا اور انکے پانچ سالہ دور میں نان ایشوز کی سیاست کی داغ بیل ڈالی گئی اور پانچ سال کے عرصہ میں سید منور حسن نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے مسئلے کو اپنا محورِ سیاست بنائے رکھا مگر اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 2013ء کے الیکشن میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن فوزیہ صدیقی نے جماعت اسلامی کے امیدوار کے مقابلے میں الیکشن لڑنے کا اعلان کر دیا حالانکہ اگر سید منور حسن چاہتے تو مرکز میں زرداری اور صوبوں میں نوازشریف کو ملکی مسائل حل نہ کرنے پر ٹف اپوزیشن ٹائم دے کر ملکی سیاست میں جگہ بنا سکتے تھے پھر 2013ء کے الیکشن کے بعد جماعت اسلامی جس میں کوئی خاطر خواہ نتائج نہ دے سکی تھی، یک مشت اپنا سارا وزن طالبان کے پلڑے میں ڈال دیا حالانکہ اس سے پہلے 2001ء سے لیکر 2013ء تک جماعت اسلامی کی طالبان کیلئے حمایت پوشیدہ تو نہیں مگر کھل کر بھی نہیں تھی۔ فیصل آباد سے القائدہ کے ٹاپ دہشت گرد خالد شیخ کی جماعت اسلامی کے عہدیدار کے گھر سے گرفتاری اور بعدازاں ڈینیئل پرل غیر ملکی صحافی کے قاتل اراکین کا کراچی میں جماعت اسلامی کے کارکنوں کے گھر سے گرفتا رہونا اس بات کے شواہد تھے کہ جماعت اسلامی کے القاعدہ اور طالبان کے ساتھ کہیں نہ کہیںروابط موجود ہیں۔ پھر ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی موت کے واقع پر جماعت اسلامی کے نظریات لوگوں پر کھل کر سامنے آئے ۔ یہی وجہ تھی کہ سید منور حسن نے اسامہ بن لادن اور حکیم اللہ محسود کو شہید قرار دیا، جس سے پاکستان کے اندر ایک ایسی بحث چھڑ گئی جس سے ملکی سلامتی انتہائی دائو پر لگ گئی اور افواج پاکستان کے نظریہ اور فلسفۂ ’’شہادت‘‘ کو شدید دھچکا لگا۔ نوازشریف حکومت پر اندرونی خلفشار اور دہشت گردی کی وجہ سے شدید دبائو تھا کہ وہ طالبان سے مذاکرات کریں اور یہ دبائو جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی کی قیادت کی طرف سے تھا۔ بعدازاں طالبان نے جو مذاکراتی کمیٹی بنائی اس میں جماعت اسلامی کے ایک رہنما بھی شامل تھے۔ فلسفہ شہادت کو زِک پہنچانے پر عوام میں شدید اشتعال پایا جا رہا تھا۔ 2014ء میں قدرے معتدل رکن کے پی کے اسمبلی سراج الحق کو امیر منتخب کر لیا گیا۔ اس دوران ڈاکٹر طاہر القادری، عمران خان اور حکومت کے درمیان سیاسی درجہ حرارت بلندیوں کو چھو رہا تھا اور حکومت مخالف تحریک اور دھرنے کا باقاعدہ آغاز ہو گیا اور غیر متوقع طور پر سراج الحق نے پیپلزپارٹی کے رحمان ملک کے ساتھ مل کر مصالحتی کوششیں شروع کر دیں جس کا فائدہ جماعت اسلامی کو یہ ہوا کہ اسے اپنا معتدل امیج عوام کے سامنے پیش کرنے کا موقع ملا۔قارئین! گزشتہ جمعہ کو لاہو رمیں جماعت اسلامی نے تیز تر سیاسی ماحول میں تین روزہ عالمی اجتماع کا انعقاد کیا۔ سب کچھ خوش اسلوبی سے جاری تھا کہ جماعت اسلامی کے سابق امیر مولانا منور حسن نے جماعت اسلامی کی معتدل قیادت کی کاوشوں پر یہ کہہ کر پانی پھیر دیا کہ ’’قتال فی سبیل اللہ‘‘ اور پھر اس کی وضاحت کرتے ہوئے آپریشن ضربِ عضب کے نتائج کو نقصان پہنچانے کی اپنی سی سعی کی گئی۔ یہ سید منور حسن کا جماعت اسلامی کے معتدل قیادت پر پہلا ’’ڈرون‘‘ حملہ تھا۔ کرائن اور حالات یہ ثابت کرتے ہیں کہ سید منور حسن جماعت اسلامی کیلئے گورباچوف ثانی ثابت ہوں گے۔ سرتاج عزیز اور سید منور حسن کی طرف سے امریکہ میں جاری جنرل راحیل شریف کے دورہ کو سبوتاژ کرنا شاید مقصود تھا۔ اور پھر آخر بلی تھیلے سے باہر اس وقت آ گئی جب سراج الحق اور انکی ٹیم حکمرانوں کیخلاف تین دن تقریریں کرتے رہے اور لوٹا ہوا پاکستانی سرمایہ واپس لانے کے بلند و بانگ دعوے کیے۔ کینیا، بھارت، سعودی عرب اور لندن کے حوالہ جات بھی دیئے مگر چشم فلک نے پھر ایک عجیب منظر دیکھا جب سراج الحق اور جماعت اسلامی کی قیادت اجتماعی دعا کے بعد اپنے غیر ملکی مندوبین کو ساتھ لے کر خصوصی طور پر جماعت اسلامی کیلئے تیار عصرانے میں پہنچ گئے جو وزیر اعلیٰ پنجاب کی طرف سے دیا گیا تھا۔ سراج الحق نے وزیراعلیٰ کا بہترین انتظامات پر شکریہ ادا کیا مگر ناقدین کو سمجھنے میں ذرا بھی دیر نہ لگی کہ یہ تین روزہ پروگرام بھی دراصل نوراکشتی تھا۔ سراج الحق اور ان کی ٹیم چاہتے تو اس اجتماع کے اثرات سمیٹ سکتے تھے مگر انہوں نے ثمرات سمیٹنے پر اکتفا کیا۔