• news

حافظ الحدیث پیر سید محمد جلال الدین شاہ مشہدی رحمتہ اللہ علیہ

برصغیر پاک و ہند میں اسلام کی ترویج و اشاعت کا سہرا اولیاء کرام کے سر ہے۔ انہیں کی تبلیغی کاوشوں نے برصغیر کے بت کدے کو توحید ایزدی کا گہوارہ بنایا۔ یہ اہل اللہ کی صدائے حق ہی تھی جس نے اس خطے کے سوئے ہوئے ضمیر کو بیدار کیا۔ شیخ المحدثین جنید زماں حضرت پیر سید محمد جلال الدین شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا شمار ایسی ہی جلیل القدر شخصیات میں ہوتا ہے۔ آپ 1915ء کو منڈی بہائوالدین کے ایک قصبہ بھکھی شریف میں پیدا ہوئے۔ آپکے والد گرامی حضرت پیر سید محمد عالم شاہ صاحب ایک صاحب کرامت بزرگ تھے۔ آپ کا سلسلہ نسب 30 واسطوں سے حضرت امام موسیٰ کاظم رحمۃ اللہ علیہ سے جاملتا ہے۔ آپ نجیب الطرفین سید ہیں، آپکی عمر ابھی چار سال ہی تھی کہ چیچک کی وجہ سے بصارت سے محروم ہوگئے۔ مگر اللہ نے آپ کو بصیرت کے بے پناہ ذخائر عطا فرمائے تھے۔ بصارت سے محرومی آپ کو علمی دنیا کی جادہ پیمائی سے روک نہ سکی۔ چنانچہ آپ نے حضور پور ضلع سرگودھا سے قرآن مجید حفظ کیا۔ آپ نے 192ء میں تحصیل درسیات کا آغاز کیا، جامعہ نعمانیہ امر تسر اور جامعہ فتحیہ اچھرہ سمیت دیگر کئی مدارس میں دس سال تک علوم دین سے اپنی پیاس بجھاتے رہے۔ اور فنون درسیات میں مہارت تامہ حاصل کی۔ آپ نے 1946ء میں میں دورۂ حدیث شریف کیلئے برصغیر کی تاریخی اور معیاری درسگاہ جامعہ مظہرالاسلام بریلی شریف میں داخلہ لیا وہاں آپ نے صدرالشریعہ مولانا امجد علی اعظمی اور محدث اعظم حضرت مولانا سردار احمد رحمۃ اللہ علیہما سے کتب حدیث پڑھیں۔ آپ نے درجہ حدیث کے امتحان میں جامعہ بریلی شریف میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے فرزند جلیل حضرت مفتی مصطفی رضا صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے آپکو سند تکمیل کے ساتھ روایت حدیث کیلئے سند اتصال بھی عطا فرمائی اور آپ کو مزید چند ماہ کیلئے اپنے پاس ٹھہرا کر فتوی نویسی کیلئے خصوصی تربیت فرمائی اور سلسلہ قادریہ رضویہ میں اجازت و خلافت سے بہرہ ور فرمایا۔
آپ اعلیٰ حضرت شرقپوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے خلیفہ اعظم حضرت پیر سید نور الحسن بخاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے دست حق پرست پر بیعت ہوئے شیخ کامل نے اس جوہر یگانہ کو مزید چمکایا اور آپکو روحانی منازل طے کروائیں۔ حضرت پیر سید چراغ علی مراڑوی (والٹن )رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے بھی آپ کا گہرا تعلق خاطر تھا۔آپکے شخصی خاکہ میں جو نقش سب سے زیادہ اجاگر تھا وہ عشق رسول ﷺ تھا، بارگاہ نبوت کے ساتھ آپ کو نسب کے علاوہ نسبت خاص بھی حاصل تھی، اس کے ظہور کا مشاہدہ کرنیوالوں نے کئی بار مشاہدہ کیا چنانچہ آپ کے رفیق خاص استاد العلماء حضرت علامہ مولانا محمد نواز صاحب نے بیان کیا کہ ’’ جب ہم بریلی شریف میں پڑھتے تھے تو دوران اسباق شاہ صاحب پریشان رہنے لگے میں نے سبب پوچھا تو فرمانے لگے معلوم نہیں ہمارا دورہ حدیث پڑھنا سرکار دو عالمﷺ کی بارگاہ میں قبول بھی ہے یا نہیں۔ بھوڑ محلہ پیلی بھیت روڈ بریلی کی مسجد کے حجرہ میں ہم مقیم تھے۔ ایک صبح بیدار ہوئے تو شاہ صاحب بے حد خوش تھے میں نے سبب پوچھا تو آپ نے فرمایا آج رات سید عالم ﷺ نے کرم فرمایا ہے۔ تشریف لائے اور فرمایا کہ تمہارا دورۂ حدیث پڑھنا اور تمہارے اساتذہ کا پڑھانا دونوں قبول ہیں۔ آپ ایک حقیقی صوفی اور ایک کامل ولی تھے۔ علمی دنیا میں بھی آپ آفتاب نصف النہار کی طرح رخشندہ رہے۔ آپ ایک عظیم محدث، یگانہ روز گار فقیہ، بیدار مغز مفتی ، نامور شیخ القرآن، زبردست اصولی، تاریخ ساز مدرس، نکۃ ور خطیب اور راست فکر مصلح تھے۔ آپ کو حافظ علوم عقلیہ و نقلیہ اور حافظ الحدیث والقرآن کے لقاب سے یاد کیا جاتا ہے۔
 چنانچہ آپ نے شیخ کامل کے حکم پر 1941ء میں اپنے قصبہ بھکھی شریف (منڈی بہائوالدین) میں ایک دینی درسگاہ کی بنیاد رکھی جس کا نام جامعہ محمدیہ نوریہ رضویہ تجویز کیا گیا۔ یہ صرف ایک جامعہ ہی کی بنیاد نہیں تھی بلکہ چھیاسٹھ سالوں پر محیط تاریخ نے یہ ثابت کردیا کہ یہ ملک کے طول و عرض میں اور بیرون ملک پھیلے ہوئے بیسیوں مدارس اور مراکز کا سنگ بنیاد تھا۔
ہزاروں لوگوں کو آپکے دامن کے ساتھ وابستہ ہونے کی وجہ سے ہدایت نصیب ہوئی آپ تادم آخر دینی مسائل میں عوام و خواص کی رہنمائی فرماتے رہے۔ آپ نے پوری زندگی بلا معاوضہ افتا اور قضا کی ذمہ داری نبھائی ۔ آپ کو فقہی جزئیات پر بڑا عبور حاصل تھا۔ قرآن و حدیث سے استد لال کے سلسلے میں اصابت فکر صلابت رائے کے مالک تھے۔ آپ فتوی لکھاتے وقت حوالہ کی کتابوں کا صفحہ اور سطر تک زبانی بیان کر دیتے تھے برصغیر کے عظیم مصلح حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ آپ کے فکری امام تھے۔
آپ نے تحریک پاکستان میں بھرپور کردار ادا کیا۔ پاکستان میں چلنے والی دینی و ملی تحریکوں، تحریک ختم نبوت اور تحریک نظام مصطفے میں جاندار کردار ادا کیا۔ آپ نے الحادی قوتوں اور فتنوں کا بڑی پامردی سے مقابلہ کیا آپ سیاسی طور پر جمعیت علماء پاکستان کے ساتھ منسلک رہے اور قائد اہلسنت مولانا شاہ احمد نورانی کی قیادت پر بھرپور اعتماد کیا۔آپ ساری زندگی سنت رسول ﷺ پر سختی سے کار بند رہے اور اپنے تلامذہ اور متعلقین کو بھی اس کی تلقین فرماتے رہے۔
18 نومبر 1985ء کو صبح ساڑھے سات بجے آپ داعی اجل کو لبیک کہہ گئے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ آپ کا مزار مبارک بھکھی شریف منڈی بہائوالدین میں ہے۔حضرت علامہ سید احمد سعید شاہ صاحب کاظمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے آپ کو شیخ المحدثین قرار دیا جب کہ علامہ مولانا شاہ احمد نورانی زید مجدہ نے آپ کو ’’جلالۃ العلم و العلمائ‘‘کے لقب سے یاد کیا۔

ڈاکٹر مفتی اشرف آصف جلالی

ڈاکٹر مفتی اشرف آصف جلالی 

ای پیپر-دی نیشن