اب سرگودھا کے گلو بٹ کی شامت
پہلے تو مجھے کالم نگاروں کی غلطیوںکی نشاندہی کرنے والے شاہد کنور کی اچانک رحلت پر افسوس کا اظہار کرنا ہے، لگتا تھا کہ یہ کوئی افسانوی کردار ہے لیکن ان کی موت کی خبر نے ان کے حقیقی وجود کی شہادت دی ہے۔ کئی ہفتوں بلکہ مہینے بھر سے ان کی ای میلیں گردش نہیںکر رہی تھیں، اس لئے میل باکس کھولنے کا مزہ نہیں آرہا تھا۔ اکثر کالم نویسوں کی ان کی ای میلوں سے جان جاتی تھی اور کئی ایک نے توجی بھر کے ان پر تبرا بھی کیا۔ مجھے ایسے لگا کہ اس نے اپنے ا وپر تنقید کی وجہ سے توبہ کر لی اور غلطی ہائے مضامین مت پوچھ کا سلسلہ ترک کر دیا ہے، مگر ان کی موت نے مجھے افسردہ کر دیا ہے، اب کون ہم کالم نویسوں کو پڑھنے لکھنے کی طرف مجبور کرے گا، ہم الم غلم لکھتے رہیں گے اور کوئی پوچھنے والا نہیںہو گا۔
شاید اسی لئے میںنے بے احتیاطی سے کام لیا ۔ جماعت اسلامی کے سلسلے میں لکھتے ہوئے میرے ذہن میں ایک قصبے ماچھی گوٹھ کا نام محفوظ تھا، میںنے سیاق و سباق کا لحاظ رکھے بغیر ا س کا ذکر کر دیا۔ مگر گرفت کرنے والے ابھی میدان میں موجود ہیں، اسلم خان نے شاہد کنور کا خلا پر کرتے ہوئے مجھے یاد دلایا کہ ماچھی گوٹھ میں جماعت اسلامی کی تشکیل نہیں ہوئی تھی، بلکہ دو لخت ہوئی تھی۔ میں نے کہا کہ پھر تومیںنے صحیح لکھا ہے، جماعت کی تشکیل چھوٹا سانحہ ہے، بڑا سانحہ یہ ہے کہ یہ دولخت ہو گئی اور اسے راہ راست پر رکھنے والوںنے اپنی راہیں جدا کر لیں۔ یہ اکابرین جماعت میں ٹکے رہتے تو منورحسن اور سراج الحق کبھی جماعت کی امارت کے قریب بھی نہ پھٹک سکتے۔ بہرحال اسلم خان کا پھر بھی شکریہ۔
چیف منسٹر پنجاب نے مسائل کا حل تلاش کر لیا ہے اور بھلا ہو ہمارے نظام انصاف کا جس نے چیف منسٹر کو یہ راستہ دکھایا ہے۔ ماڈل ٹائون میں ایک درجن بے گناہوںکو پولیس نے سیدھے فائر سے شہید کیا مگر اس سارے واقعے میں سزا ایک ایسے شخص گلو بٹ کوہو گئی اور وہ بھی بہت لمبی جس نے فائرنگ کے موقع پر ڈنڈے سے گاڑیوںکے شیشے توڑے۔
اب سرگودھا کے ایک ہسپتال میں نوزائیدہ بچوں کی ہلاکت کا سلسہ شروع ہوا جو ختم ہونے کا نام ہی نہیںلیتا تو چیف منسٹر نے حکم صادر کر دیا ہے کہ مجرموں کو گرفتار کر لیا جائے۔ ہر مسئلے کا یہ ایک آسان حل ہے، چیف منسٹرا ور ان کی ساری حکومتی مشینری کو کسی بھی مسئلے کے حل کے لئے کچھ نہیںکرنا پڑے گا، بس جہاں مسئلہ بگڑے گا، وہاں گرفتاریاں شروع، یہ ہے ہر مسئلے کوگھر بیٹھے بٹھائے حل کرنے کا آسان طریقہ۔ اس طرح خادم اعلی کا لقب بھی قائم ودائم رہے گا۔
ایک زمانے سے شریف برادران کا دستور یہ رہا ہے کہ مظلوم کی داد رسی کے لئے اس کے سرہانے ضرور پہنچتے تھے۔ کسی خاتون کی عصمت لوٹ لی جاتی تو میاں نواز شریف فوری طور پر پی ٹی وی کیمروں کی ٹیم کے جلو میںموقع پر جا پہنچتے اور ساری دنیا کو مظلومہ کا چہرہ دکھاتے، یہ بے چاری ساری دنیا سے چہرہ چھپاتی پھرتی تھی۔ سیلاب زدگان کے آنسو پونچھنا بھی شریف برادران کو اچھا لگتا ہے۔ یا کسی دوسری آفت کا شکار ہونے والوں کے سر پر بھی وہ ہاتھ ضرور رکھتے ہیں، کہیں چھت گرنے سے ہلاکتیں ہو جائیں تو برادران کی عدیم الفرصتی کی وجہ سے بچگان یہ فریضہ نبھاتے ہیں، اب تو بیڈن روڈ، گوالمنڈی اور رام گلیاںکی ایک نسل پروان چڑھ چکی ہے اور وہ منتظر رہتے ہیں کہ حکم ملے تو وہ کہیںبھی تشفی کے لئے جانے کو تیار نظر آتے ہیں، یہ نیک کام انجام دینے کے لئے انہیں چیف منسٹر کا ہوائی جہاز یا ہیلی کاپٹر بھی میسر آ جاتا ہے۔ اس پر بعض حلقے تنقید کرتے ہیں لیکن مسئلے کی سنگینی سے نبٹنے کے لئے سرعت سے اقدامات نہ کئے جائیں تو یہ گناہ عظیم ہے جو چیف منسٹر یا ان کی نمائندگی کرنے والے نوجوانوں کو گوارا نہیں۔
ویسے سوچا جائے کہ کیا سرگودھا کے مرنے والے بچوں کے مسئلے کا یہی ایک حل تھا کہ ان کے ملزم یا مجرم گرفتار کر لئے جائیں، ان ملزموں یا مجرموں کا تعین کون کرے گا۔ چیف منسٹر پنجاب یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ سرگودھا میں بچے پیدا ہی زیادہ ہوتے ہیں اس لئے مرتے بھی زیادہ ہیں، سندھ کے چیف منسٹر نے یہی کہہ کر اپنی جان چھڑانے کی کوشش کی ہے۔ اور یہ بھی کہا کہ میڈیا، اس مسئلے کو اچھال رہا ہے۔ اگر چیف منسٹر سندھ کے بس میںہوتا تو وہ میڈیا کو ہتھکڑیاں لگوا دیتے کہ وہ ایک مسئلے کو ہوا دے رہا ہے۔
سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ اگر بچوں کی قسمت میںمرنا ہی لکھاہے تو پھر یہ دانش سکولوں کا جال کس کے لئے بچھایا جا رہا ہے، اگر تو یہ بچوں کے لئے ہیں تو پھر چیف منسٹر کو پہلی کوشش یہ کرنی چاہئے کہ بچے دانش سکولوں کا رخ کریں، قبروں کا رخ نہ کریں۔ہمارے کالم نویس بھائی اجمل نیازی نے میو ہسپتال کی اچھائیاں بیان کی ہیں،اس سے پہلے انہوںنے جناح ہسپتال کی اچھائیوں کا ذکر کیا تھا، اچھائیوں کا ذکر بہت ضروری ہے لیکن کیا ساری اچھائیاں صرف لاہور کے ہسپتالوںکے لئے مخصوص ہونی چاہئیں۔ اجمل نیازی کبھی میرے ساتھ میرے گائوں کے قریب گنڈا سنگھ والا کے ہسپتال میں چلیں اور اس کی زبوں حالی کا قصہ بھی لکھیں، میں لکھوں گا تو مجھے متعصب کہا جائے گا، اجمل نیازی ایک غیر جانبدار، جہاندیدہ، خدا رسیدہ اور سینیئر کالم نویس ہیں، ان کی رائے کو اہمیت دی جاتی ہے اور گنڈا سنگھ والا کے ہسپتال میں بھی کسی ڈاکٹر یا دوائی کا بندو بست بہت ضروری ہے۔ ایک زمانے میں ڈاکٹر محمود چودھری وزیر صحت تھے اور حسن وسیم افضل ان کے سیکرٹری، دونون بھلے انسان تھے مگر وہ میرے گائوں کے ہسپتال کے لئے سہولتوںکی فراہمی کے لئے تیار نہ ہوئے، دلیل یہ تھی کہ ضیاالحق نے دور دراز علاقوں میں ناحق عمارتیں کھڑی کر دی تھیں، وہاںکوئی ڈاکٹر جانے کو تیار نہیں۔ میرا گائوں لاہور سے صرف چالیس کلو میٹر کے فاصلے پر ہے، یہ اگر دور دراز ہے تو سرگودھا تو افق کے پار ہے، بلکہ کہہ دیں یا سمجھ لیں کہ پنجاب میں واقع ہی نہیں، اس لئے وہاں اگر بچے مر رہے ہیں تو کسی کو کیا لگے، بس ان کے والدین روتے دھوتے رہیں۔ان للہ!
سرگودھا کے گلو بٹ کے گلے میں پھندا ڈالتے ہی یہ مسئلہ حل ہو جائے گا جیسے اب کوئی ماڈل ٹائون سانحے کا نام نہیں لیتا، گلو بٹ کو قرار واقعی سزا مل چکی، یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ اور مسائل کا نام و نشان مٹ جائے گا۔ انشا اللہ!
چیف منسٹر پنجاب نے جماعت ا سلامی کے ان رہنمائوں کی تواضع فرمائی جنہوںنے قتال فی سبیل اللہ کا فلسفہ پیش کیا ہے۔ یہ کام طالبان ایک عرصے سے انجام دے رہے ہیں، اب داعش نے اسے سائنٹیفک طریقے سے شروع کیا ہے۔ چیف منسٹر کی مردم شناسی پر الحمد للہ !!