بیورو کریسی ۔ سُخن ور صدر کا مرتبہ پہچانے!
خبر ہے کہ ”بھارتی وزیرِاعظم شِری نریندر مُودی نے سارک کانفرنس میں شرکت کے موقع پر نِیپال میں بُدّھ مت کے بانی گوتم بُدّھ اور ہندوﺅں کے اوتار ”شِری رام“ کی اہلیہ سِیتا جی کے مقاماتِ پیدائش کے درشن (زیارت) کرنے کا پروگرام منسوخ کر دِیا ہے اور وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ ”سکیورٹی کے معاملات ٹھیک نہیں ہیں۔“
میرے نزدیک معاملات کچھ اور ہیں۔ مُودی جی کے لئے گوتم بُدّھ اور سِیتا جی کے مقامات پیدائش کی زیارت دو وجوہات کی وجہ سے مشکل تھی۔ پہلی وجہ یہ کہ بُدّھ متّ عدم تشدّد اور مساوات کا علمبردار ہے اور اِس کے برعکس بھارتیہ جنتا پارٹی ¾ تشدّد پسند پارٹی ہے اور عدم مساوات ¾ ذات ¾ پات اور چھُوت چھات کی بِیماریوں کی شِکار ہے۔ مُودی جی کو عین وقت پر اُن کے کسی مُشیر نے بتا دِیا ہو گا کہ ”پردھان منتری مہودے! یدی آپ گوتم بُدّھ کی جنم بھومی کے درشن کو جائیں گے تو پارٹی کی ساکھ کو بٹّا لگ جائے گا۔“
سِیتا جی کا معاملہ یہ ہے کہ ”شِری رام“ کے ریاست ایودھیا سے 14 سال کے بن باس کے دوران سِیتا جی اُن کے ساتھ تھیں۔ ایک دِن موقع پا کر اور براہمن کا بھیس بدل کر لنکا کا راجا ”راون“ سِیتا جی کو اغوا کر کے لے گیا تھا۔ شِری رام راجا راون کو شکست دے کر اُس کے قبضے سے سِیتا جی کو چھڑا لائے تھے اور ایودھیا کے راجا بن گئے۔ قبل ازیں شِری رام تک یہ بات پہنچائی گئی کہ ”چونکہ سِیتا جی کافی مدّت تک راجا راون کے قبضہ میں رہی ہیں اِس لئے وہ ”پاک دامن“ نہیں رہیں۔ راجا شِری رام نے سِیتا جی سے مُنہ موڑ لیا اور انہیں اپنی تخت نشینی کی تقریب میں مدّعُو نہیں کِیا۔ سِیتا جی نے اپنی پاک دامنی کا ثبوت دینے کے لئے ”اگنی پرِکشا“ (یعنی آگ پر چل کر بھی نہ جلنے کا امتحان) دی۔ لوگوں نے واہ واہ کی لیکن سِیتا جی نے ”دھرتی ماتا“ (زمین) سے پناہ مانگی۔ زمین پھٹ گئی اور سِیتا جی اس میں سما گئیں۔
شِری نریندر دامودر داس مودی وزیرِاعظم منتخب ہُوئے تو بھارتی اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا پر انکشاف ہُوا کہ ”صوبہ گجرات کے گاﺅں ”راج سانا“ میں 61 سالہ ٹیچر یشودھا بَین رہتی ہیں جو شِری نریندر مودی کی اہلیہ ہیں اور مودی جی نے سنیاسی بن کر (یعنی دُنیا داری ترک کر کے) کئی سال ہُوئے چھوڑ دِیا ہے ¾ حالانکہ شِری متی یشودھا بَین کی پاک دامنی کو مشکوک قرار دینے کے بارے میں کوئی افواہ نہیں پھیلی اور نہ ہی شِری مُودی نے ہی اُن پر کوئی الزام لگایا۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق مسز مُودی (یشودھا بَین) کے گھر والوں نے (مودی جی کے وزارت ِ عُظمیٰ کا حلف اٹھانے کے 6 ماہ بعد) کہا ہے کہ ”مُودی جی نے مسز یشودھا بَین کو ابھی تک طلاق نہیں دی ہے ¾ لہٰذا بھارتی حکومت انہیں بھارت کی "First Lady" یعنی خاتونِ اوّل کا درجہ دے“ کیا مسز یشودھا بَین کو وزیرِاعظم مُودی کی اہلیہ کا درجہ مِل جائے گا؟ یا اُن کا حشر بھی سِیتا جی کا سا ہوگا؟ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ میرا خیال ہے کہ اگر شِری مودی سِیتا جی کی جنم بھومی کے درشن کو جاتے تو بات کا بتنگڑ تو بن ہی سکتا تھا۔
30 نومبر ”یک طرفہ ہولی؟“
خبر ہے کہ ”اسلام آباد میں 30 نومبر کو عمران خان کا جلسہ ناکام بنانے کے لئے ایف سی اور پولیس اہلکاروں کو ڈنڈوں سے لڑائی کی تربیت دی جا رہی ہے اور وہ قانون ہاتھ میں لینے والوں پر رنگ دار پانی بھی پھینکیں گے۔“ خبر سے پتہ چلتا ہے کہ اِس سے قبل ایف سی اور پولیس اہلکاروں کو ڈنڈوں سے لڑائی کی تربیت نہیں دی گئی۔ شاید اِس لئے کہ قانون نافذ کرنے والے اِ ن دونوں اداروں کے اہلکاروں کا ڈنڈا بردار دھرنا داریوں سے واسطہ ہی نہیں پڑا تھا۔ دو ماہ قبل سپریم کورٹ کے ایک فاضل جج نے ڈنڈا بردار دھرنا دھاریوں کے بارے میں اٹارنی جنرل سے پوچھا تھا کہ ”کیا یہ لوگ ڈانڈِیا کھیلنے آئے ہیں۔“ ہندو مرد اور عورتیں اپنے بعض تہواروں کے موقع پر چھوٹے ڈنڈوں ( چھڑیوں) "Stick" کو ٹکراتے اور ناچتے گاتے ہیں۔ اِس کھیل کو ”ڈانڈِیا“ کہتے ہیں۔
”ہولی“ بھی ہندوﺅں کا تہوار ہے جِس میں مرد اور عورتیں ایک دوسرے پر رنگ دار پانی پھینکتے ہیں لیکن جب ہماری ایف سی اور پولیس کے اہلکار قانون ہاتھ میں لینے والوں پر رنگ دار پانی پھنکیں گے تو یہ تو اُن کی یک طرفہ ہولی ہوگی۔ دھرنا دھاری رنگین پانی پھینکے جانے پر صِرف اس سے بچنے کی کوشش کریں گے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ جناب جہانگیر ترِین یا تحریک ِ اِنصاف کوئی اور ”امِیر ترِین“ لیڈر پارٹی کے کارکنوں کے لئے مقابلے کے لئے رنگین پانی اور پانی پھینکنے کے لئے پھوار دار پائپس کا بھی بندوبست کر دے۔ اُستاد راسخ نے نہ جانے کِس رنگ میں کہا تھا کہ
”عِید کے دِن وہ ذبح کر کے مجھے
گھر میں ہولی منائے بیٹھے ہیں“
بیورو کریسی ”سُخن ور صدر“ کا مرتبہ پہچانے!
خبر ہے کہ ”وزیرِاعظم میاں نواز شریف کی ہدایت پر سیکرٹری کیبنٹ ڈویژن نے تمام وفاقی اور چاروں صوبوں کے سیکرٹریوں کو ایک مراسلہ بھیجا ہے جِس میں کہا گیا ہے کہ اِس بات کا سختی سے نوٹس لِیا گیا ہے کہ ”بعض وزارتیں صدرِ مملکت جناب ممنون حسین کی طرف سے بھجوائے جانے والے ریفرنسز کے جوابات نہیں بھجواتیں۔“ چنانچہ ایوانِ صدر کی طرف سے بھیجے جانے والے تمام ریفرنسز کے بارے میں فوری طور پر مکمل معلومات فراہم کی جائیں۔ اِس سے قبل ایوانِ صدر کی طرف سے وزیرِاعظم صاحب کو لِکھا گیا تھا کہ ”صدرِ مملکت کی ہدایت پر مختلف وزارتوں، محکموں اور اداروں سے جو رپورٹس مانگی جاتی ہیں اور اُن کے بارے میں یاد دہانی کے طور پر بار بار خطوط بھی لِکھے جاتے ہیں لیکن اُن کا جواب نہیں دِیا جاتا۔
اِس خبر کی اشاعت سے یہ تو ثابت ہو گیا کہ وزیرِاعظم نواز شریف صدر ممنون حسین کی بے حد عزّت کرتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ تمام وفاقی اور صوبائی سیکرٹریز بھی اُن کے عزّت و احترام میں کوئی کسر نہ چھوڑیں لیکن کیا کِیا جائے کہ آئین کے تحت طاقتور وزیرِاعظم اور مسلم لیگ (ن) کے بااختیار صدر کی حیثیت سے میاں نواز شریف کے پاس اُتنے ہی اختیارات ہیں جتنے وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے پاس تھے اور جناب ممنون حسین کے پاس اتنے ہی اختیارات ہیں جو جناب بھٹو کے دَور میں صدر فضل الٰہی چودھری کے پاس تھے۔ وزیرِ اعظم بھٹو اپنے پہلے بیرونی دورے سے واپس آئے تو صدر فضل الٰہی چودھری نے اُن کے استقبال کے لئے ائر پورٹ پرجانے کی خواہش کی۔ اُن کے سیکرٹری نے کہا کہ ”جناب صدر“ پروٹوکول کے مطابق آپ ایسا نہیں کر سکتے!“ تو چودھری صاحب نے کہا کہ ”یار کِتے بھٹو صاحب ناراض ای نہ ہو جان!“ فضل الٰہی چودھری شاعر نہیں تھے جب کہ جناب ممنون حسین باقاعدہ شاعر ہیں۔ سابق افغان صدر جناب حامد کرزئی ہمارے صدر کو ”سخن ور صدر“ کا خطاب دے چُکے ہیں۔ کیا یہی اچھا ہو کہ بیورو کریسی ”سُخن ور صدر“ کا مرتبہ پہچانے!