10 اہلکار بھیج کردھرنی صاف کرا سکتے ہیں، کسی کو پارلیمنٹ یا سرکاری اداروں پر یلغار کی اجازت نہیں دیں گےؔ نثار
اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی+ ایجنسیاں) چودھری نثار نے کہا ہے اگر تحریک انصاف 30 نومبر کو سیاسی سرگرمی اور احتجاج کرنا چاہتی ہے تو حکومت اس میں کسی قسم کی رکاوٹ نہیں ڈالے گی اگر اس کا ارادہ یلغار یا حملہ اور سرکاری عمارات پر قبضے اور شاہراہ دستور پر یلغار کا ہے تو پھر قانون حرکت میں آئے گا اور کسی ایسی غیر قانونی حکمت عملی کا مقابلہ کیا جائے گا۔ حکومت اپنی رٹ قائم کرنا جانتی ہے کسی کو پارلیمان یا سرکاری اداروں پر یلغار کی اجازت نہیں دیگی۔ عمران خان پر واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ اب سیاسی غنڈہ گردی کو وقت اور جگہ پر محدود کر دیں، ریاست کی طاقت ہمیشہ موثر ہوتی ہے، 31 اگست کو اس کا باقاعدہ اظہار کیا جا چکا ہے کوئی اس ابہام اور غلط فہمی میں نہ رہے کہ ریاست کی طاقت قانون کی عملداری کے حوالہ سے کمزور ہوئی ہے، عمران درست کہتے ہیں کہ 14اگست کو حالات اور تھے، اب کچھ اور ہیں، 30نومبر کو صورتحال یکسر مختلف ہو گی، آج حتمی فیصلہ کر لیں گے کہ 30 تاریخ کو ہماری انتظامی حکمت عملی کیا ہو گی۔ ضلعی انتظامیہ اور پی ٹی آئی کی مقامی قیادت کی بات چیت چل رہی ہے۔ جلسے کی اجازت کی درخواست پہنچ چکی ہے، ضلعی انتظامیہ اور وزارت داخلہ اس درخواست پر غور و خوض کر رہی ہے، ہمارا حتمی فیصلہ سامنے آ جائے گا، اسلام آباد میں دوبارہ فوج کو طلب کیا جاسکتا ہے، سینکڑوں فوجی جوان جڑواں شہر میں الرٹ بیٹھے ہیں، دھرنے کی ناکامی پر کسی کو قومی عمارتوں پر یلغار اور دھاوا نہیں بولنے دیں گے۔ تقریب سے خطاب اور پریس کانفرنس میں انہوں نے کہا کہ سول ملٹری ایجنسیوں اور وفاقی و صوبائی حکومتوں کے درمیان روابط مزید بہتر ہونے چاہئیں۔ عمران خان اور شیخ رشید کی گرفتاری کے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ تھوڑا صبر کریں حکومت تمام معاملات کا سیاسی طور پر جائزہ لے رہی ہے۔ 9/11 کے حملوں میں ملوث افراد کا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں انہوں نے کبھی پاکستانی سرزمین پر قدم بھی نہیں رکھا مگر اس المناک واقعہ کا سارا ملبہ پاکستان پر ڈال دیا گیا پاکستان وہ واحد ملک ہے جس نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ قیمت ادا کی اور نقصان اٹھایا ہے۔ ہماری پولیس اور سکیورٹی ایجنسیوں کی ایسی جنگ کی تیاری نہیں تھی انہوں نے صرف کھلی جنگ کی تربیت حاصل کر رکھی ہے۔ امریکہ اور برطانیہ اور مغربی دنیا کے لئے تو دہشت گردوں میں فرق جانچنا آسان ہو گا کہ ان کا عام شہری کون ہے اور کون ان کے خلاف لڑ رہا ہے مگر یہ پاکستان کے لئے آسان نہیں ہے دشمن اندر سے ہے۔ ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کسی سے بھیک نہیں مانگیں گے مگر تربیت کے شعبہ میں بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ آپریشن ضرب عضب کی وجہ سے ملک میں مجموعی طور پر دہشت گردی میں کمی واقعہ ہوئی ہے۔ ڈی چوک میں 30، 40 لوگوں کی دھرنی ہوتی ہے۔ دس پولیس والے بجھوا دیں تو یہ پورا علاقہ صاف ہو جائے گا مگر حکومت نے صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا ہے اور گزشتہ دو ماہ سے جاری دھرنے کو فری ہینڈ دیا۔ یہ اپنے احتجاج کا شوق ضرور پورا کریں۔ قانون کو ہاتھ میں نہ لینے والوں کی گرفتاریاں نہیں کریں گے۔ اب تک قومی خزانے سے ان دھرنوں کے حوالے سے سکیورٹی کے لئے ایک ارب خرچ ہو چکے ہیں جبکہ یہ اخراجات فاٹا دیگر علاقوں میں قیام امن کے لئے استعمال ہو سکتے تھے۔ اس مرتبہ دفاعی لائن میں سب سے آگے فرنٹیئر کانسٹیبلری ہو گی۔ پولیس اور انتظامیہ کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے نمٹنے کے لئے تیار ہے اور ضرورت پڑنے پر پہلی مرتبہ آبی توپ یا ’واٹر کینن، بھی استعمال کی جائے گی۔ پولیس نے اپنی غلطیوں سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ دوسری جانب وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے عمران کی جانب سے عدالتی راہ اختیار کرنے کا خیرمقدم کیا اور کہا ہے کہ انہوں نے فتنہ و فساد کی راہ ترک کرکے اپنے رویئے میں مثبت تبدیلی کر لی ہے، توقع ہے ہے کہ اب وہ یوٹرن نہیں لیں گے، ہم نے الزامات کی سیاست ترک کر دی، عمران جمعہ کو ٹیکس ریٹرن فائل کے ساتھ لے آئیں اور میں بھی آ جائوں گا دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ عمران خان کو مجھ سے شکایات ہے کہ میں ان کی اچھائی بیان نہیں کرتا، اب انہوں نے عدالتوں سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے، پاکستان ایک تہذیب یافتہ ملک ہے اور قانون سے بالا تر کوئی نہیں وہ کنٹینر پر کھڑے ہوکر الزامات کی بارش کرتے ہیں ان کو جواب نہیں دے سکتے تھے۔ اب ان کے الزامات کے جواب دینے کا ہمیں عدالت میں موقع ملے گا۔ مسلم لیگ (ن) عام آدمی کی پارٹی ہے، ہمارے قائد سفری اخراجات خود برداشت کرتے ہیں، سنیٹر مشاہد اللہ اب بھی کرایہ کے مکان میں رہتے ہیں، عمران کے ارد گرد سرمایہ دار کھڑے ہوتے ہیں، اگر وہ شیشے کے گھر میں بیٹھ کر پتھر پھینکیں گے تو ان کے گھر کے شیشے بھی سلامت نہیں رہیں گے۔ عمران قوانین میں تبدیلی چاہتے ہیں تو پارلیمنٹ میں آئیں ، پاکستان میں آئین قانون کی حکمرانی ہے، شکایات کا ازالہ کیا جائے گا۔