حضرت بہاء الدین زکریا ملتانیؒ
سلیم ناز
عظیم روحانی پیشوا برصغیر میں بسلسلہ سہروردی شیخ الاسلام حضرت غوث بہاء الدین زکریا ملتانیؒ کے 775واں تین روزہ سالانہ عرس مبارک کی افتتاحی تقریب آج مذہبی عقیدت کے ساتھ منعقد ہو رہی ہے رئیس الاولیاء زکریا ملتانیؒ کا عرس ہر سال 5صفر سے 7صفر تک ملتان میں ان کے مزار مبارک پر منایا جاتا ہے امسال عرس کے پہلے روز تقاریب کا آغاز غسل مزار مبارک سے ہوتا ہے مخدوم شاہ محمود قریشی چادر پوشی کی رسم ادا کرتے ہیں۔
عرس مبارک کی تقاریب کے انعقاد کا سلسلہ ایک عرصہ سے جاری ہے۔ حسب معمول اس مرتبہ بھی خصوصی انتظامات دیکھنے میں آئے۔ دربار کے چاروں اطراف سیکورٹی کیمرے نصب کرنے کے ساتھ ساتھ زائرین کے لئے کافی سہولیات مہیا کی گئی ہیں۔ عرس مبارک کی تقریبات میں ملتان کے مقامی‘ گردونواح کے علاوہ سندھ سے زائرین کی کافی تعداد شریک ہوتی ہے جن کے لئے خصوصی ٹرینیں چلائی گئی ہیں۔
تاریخ کے اوراق پلٹیں تو حضرت بہاء الدین زکریا کی علمی و مذہبی خدمات کا نمایاں باب سامنے آتا ہے اولیاء کرام کی دھرتی ملتان کی تاریخ قدیم بھی ہے اور عظیم بھی۔ روحانی اعتبار سے ملتان کو جو حیثیت و عظمت حاصل ہے وہ کسی اور شہر کو حاصل نہیں۔ عہد قدیم میں یہ شہر سورج دیوتا کی پوجا کا اہم مرکز سمجھا جاتا تھا۔ منشی عبدالرحمن خان اپنی کتاب میں لکھتے ہیں ’’ملتان کے مندر میں ایک طلائی بت موجود تھا جس کی وجہ سے ملتان کفار کا خاص مرکز رہا۔ وہ اپنے عقیدت کے مطابق یہاں پوجا کے لئے آتے تھے اور اس بت پر سونا چاندی کے جواہرات کی بارش کرتے تھے اسی وجہ سے یہ شہر ’’سونے کا گھر‘‘ بھی کہلاتا تھا۔ کفر کے ان اندھیروں کو مٹانے کے لئے حضرت بہاء الدین زکریاؒ نے اسلام کی شمع روشن کی۔ سلسلہ سہروردیہ کے فیوض و برکات کاآغاز کیا۔ ان کا عہد تقریباً ایک صدی پر محیط ہے جسے ’’خیرالاعصار‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔
حضرت غوث بہاء الدین زکریاؒ 27 رمضان المبارک 566ھ کو کروڑلعل عیسن میں پیدا ہوئے۔ آپ کے آبائواجداد کا تعلق قریش مکہ کے معزز قبیلے سے تھا۔ آپ کے دادا شیخ کمال الدین علی مکہ معظمہ سے خوارزم آئے اور پھر وہاں سے ملتان تشریف لائے۔ ملتان میں انہوں نے اپنے صاحبزادے شیخ وجیہہ الدین محمد غوث کی شادی کوٹ کروڑ میں مولانا حسام الدین ترمذی کی صاحبزادی سے کر دی جس کے بطن سے حضرت بہاء الدین زکریاؒ پیدا ہوئے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم ملتان ہی میں حاصل کی۔ قرآن مجید کی تعلیم سات قرأتوں میں حاصل کی۔ ابھی 12سال کے تھے کہ والد صاحب کا انتقال ہو گیا۔ اس کے بعد آپ خراساں تشریف لے گئے۔ سات برس تک جید علماء و مشائخ سے علوم ظاہر و باطن حاصل کئے۔ پھر بخارا گئے جہاں سند فضیلت حاصل کی۔ خرقہ خلافت پانے کے بعد حضرت بہاء الدین زکریاؒ کو مرشد کی طرف سے حکم ملا کہ ملتان واپس جا کر قیام کرو اور وہاں کے باشندوں کو فیض پہنچائو۔ مرشد کے حکم پر آپ ملتان تشریف لائے اور یہاں دین اسلام کی تبلیغ شروع کر دی۔ حضرت غوث بہاء الدین زکریاؒ ہندوستان میں رئیس الاولیاء تھے۔ علوم ظاہری کے عالم اور مکاشفات و مشاہدات کے مقامات و احوال میں کامل تھے۔ آپ نے لوگوں کو رشدوہدایت فرمائی اور وہ کفر سے ایمان‘ معصیت سے اطاعت اور نفسانیت سے روحانیت کی طرف لوٹ آئے۔ مذہب کے ساتھ ساتھ علم کے میدان میں کارہائے نمایاں سرانجام دئے۔ آپ کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے ملتان میں ایک ایسا علمی‘ دینی اور روحانی مدرسہ قائم کیا جسے برصغیر کی پہلی اقامتی یونیورسٹی کی حیثیت حاصل تھی۔ آپ بہت مالدار اور سخی تھے اس لئے طالب علموں کے تمام اخراجات آپ خود پورے کرتے۔ تعلیم مفت تھی‘ خوراک‘ لباس اور رہائش کا انتظام تھا۔ بزرگان دین کے ملفوظات شاہد ہیں کہ آپ کی درس گاہ سے ہزاروں طالب علم قرآن و حدیث اور فقہ کے علاوہ خطاطی‘ تاریخ نویسی‘ ظروف سازی‘ جلد سازی اور تجارت سمیت مختلف علوم و فنون کے ماہر بنے جنہوں نے ہندوستان کے علاوہ جاوا سماٹرا‘ انڈونیشیا‘ فلپائن‘ خراسان اور چین تک اسلام کی روشنی پھیلائی۔ محمدبلخی جیسا خطاط اور اس کے کئی شاگرد ملتان میں موجود تھے۔ حضرت غوثؒ کے زمانے میں خط نستعلیق کو بڑا عروج حاصل ہوا۔ آپ کی اس درس گاہ میں دو شعبے تھے۔ ایک میں علماء اور دوسرے میں مبلغین کی جماعتوںکی تربیت ہوتی تھی۔ ان مبلغین کی روانگی کے وقت انہیں سامان تجارت دیا جاتا تاکہ وہ اپنے روزگار کا خود انتظام کریں۔ اسی طرح مبلغین اور واعظین کے مختلف گروہ سندھ‘ مکران‘ کشمیر‘ ذہلی اور افغانستان میں بھی روانہ کئے جاتے تھے ان حضرات کو سفر کے خطرات اور درپیش مشکلات سے عہد برا ہونے کے لئے گھڑسواری‘ تلوار بازی‘ تیراندازی اور نیزہ بازی کی باقاعدہ تربیت دی جاتی تھی۔ گویا اس مدرسے کے فارغ التحصیل علمائ‘ مبلغین اور واعظیم دین و دنیا اور ظاہر و باطن کا حسین امتزاج تھے۔ ان علماء اور مبلغین نے مختلف مقامات پر دینی مدارس قائم کئے جو دراصل روحانی مراکز تھے۔ حضرت غوث بہاء الدین زکریاؒ نے امربالمعروف اور نہی عن المنکر کو بنیاد بنا کر اسلامی تعلیمات کے اجالوں کو پھیلایا اور اس طرح انفرادی‘ اجتماعی اور معاشرتی برائیوں کے خاتمے کے ساتھ ساتھ اسلامی معاشرے کی تشکیل کے لئے اہم خدمات سرانجام دیں۔ حضرت غوث العالمینؒ کی زندگی دین و دنیا اور علم و عمل کا حسین امتزاج تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی آپ کی درگاہ اتحاد یکجہتی اور اخوت کا بہت بڑا مرکز ہے۔ عرس کی تقریبات کے علاوہ بھی باقی دنوں میں زائرین کا کافی رش رہتا ہے۔ عرس کے موقع پر خصوصی لنگر تقسیم کرنے کے ساتھ ساتھ دودھ کی سبلیں لگائی گئی ہیں ملتان کی تہذیب و ثقافت اور فن کاشی و نقاشی کی آئینہ دار اشیاء کے سٹائل بھی لگائے گئے ہیں۔ تقریبات کا اختتام خصوصی دعائوں سے ہو گا۔ مخدوم شاہ محمود قریشی دعا کرائیں گے۔